ہارٹ اٹیک اور فالج کی وجہ بننے والی ادویات

بیجنگ / واشنگٹن: امریکی اور چینی ماہرین نے ایک مشترکہ تحقیق کے بعد دریافت کیا ہے کہ درد ختم کرنے والی بعض دوائیں ہائی بلڈ پریشر، دل کی بیماریوں اور فالج تک کی وجہ بھی بن سکتی ہیں کیونکہ ان میں سوڈیم ہوتا ہے۔

ان دواؤں میں سرِفہرست نام پیراسیٹامول کا ہے جسے پانی میں فوری حل ہونے کے قابل بنانے کےلیے سوڈیم کی اچھی خاصی مقدار شامل کی جاتی ہے۔

نمک کا اہم ترین جزو سوڈیم ہے جو ہماری صحت کےلیے بہت ضروری ہے۔ لیکن اگر جسم میں اس کی مقدار زیادہ ہوجائے تو یہی سوڈیم ہمیں صحت مند بنانے کے بجائے ہائی بلڈ پریشر، دل کی بیماریوں اور فالج جیسی بیماریوں میں مبتلا بھی کرسکتا ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق، ایک دن میں 2000 ملی گرام (آدھے چائے کے چمچے) سے زیادہ سوڈیم ہمارے جسم میں پہنچنا نہیں چاہیے جبکہ امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن نے یہ حد اس سے بھی کم، یعنی 1500 ملی گرام مقرر کی ہوئی ہے۔

اس مقررہ حد کو مدنظر رکھتے ہوئے ماہرین نے جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ پیراسیٹامول (ایسیٹامینوفن) کی 500 ملی گرام والی ہر گولی میں تقریباً 400 ملی گرام سوڈیم شامل ہوتا ہے۔

یہی وہ گولی ہے جو ساری دنیا میں روزمرہ درد سے نجات کےلیے سب سے زیادہ استعمال ہوتی ہے اور تقریباً ہر میڈیکل اسٹور پر دستیاب رہتی ہے۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو لوگ روزانہ پیراسیٹامول کی صرف دو گولیاں بھی کھاتے ہیں، وہ اپنی غذا میں 800 ملی گرام سوڈیم مزید شامل کر رہے ہوتے ہیں جو آگے چل کر ان کی صحت کےلیے تباہ کن بھی ثابت ہوسکتا ہے۔

لیکن کیا واقعی ایسا ممکن ہے؟ یہ جاننے کےلیے انہوں نے عوامی صحت سے متعلق ایک وسیع برطانوی ڈیٹابیس کھنگالا۔

اس میں سے 60 سال یا زیادہ عمر کے تقریباً تین لاکھ برطانوی شہریوں کی صحت سے متعلق مفصل اعداد و شمار الگ کیے گئے جو ایک سال کا احاطہ کرتے تھے۔

یہ تمام بزرگ وہ تھے جو روزانہ پیراسیٹامول استعمال کرتے تھے۔ ان میں سے تقریباً نصف بغیر سوڈیم کی، جبکہ باقی سوڈیم والی پیراسیٹامول لے رہے تھے۔

جو بزرگ سوڈیم والی پیراسیٹامول روزانہ استعمال کررہے تھے، ان میں اگلے ایک سال کے دوران دوسروں کی نسبت ہائی بلڈ پریشر، دل کے دورے اورفالج وغیرہ جیسے امراض اور موت کا خطرہ کچھ زیادہ تھا۔

سوڈیم کی مقدار اور امراضِ قلب میں تعلق اتنا واضح ہے کہ اسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

چونکہ یہ تحقیق اعداد و شمار کی بنیاد پر کی گئی تھی جس میں کسی بھی شخص کا براہِ راست مشاہدہ نہیں کیا گیا تھا، اس لیے ماہرین پوری طرح یہ نہیں بتا سکتے کہ سوڈیم کی اضافی مقدار کس طرح ان لوگوں کی صحت پر اثر انداز ہوئی ہوگی۔

یورپین ہارٹ جرنل کے تازہ شمارے میں شائع ہونے والی اس تحقیق سے وابستہ ماہرین نے مزید مطالعے پر زور دیا ہے۔

تاہم انہوں نے اس جانب سے بھی خبردار کیا ہے کہ ادویہ ساز ادارے اپنی تیار کردہ ادویہ میں شامل سوڈیم کی مقدار کے بارے میں لیبل پر کچھ نہیں لکھتے۔

ماہرین نے ادویہ ساز اداروں اور ڈاکٹروں، دونوں پر زور دیا ہے کہ وہ دواؤں میں سوڈیم کی موجودگی اور استعمال کی حد سے متعلق مریضوں کو ضرور بتائیں کیونکہ یہ اس قدر اہم پہلو ہے کہ جسے موجودہ معلومات کی روشنی میں بالکل بھی نظر انداز نہیں ہونا چاہیے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں