ڈنمارک(عقیل قادر )پچھلے چند سالوں سے ڈنمارک کی سیاست اینٹی مسلم ہونا شروع ہوئی اور آج کم و بیش ہر ڈینش سیاسی جماعت کی سیاست اسی ایشو کے گرد گھوم رہی ہے، منہاج القرآن انٹرنیشنل ڈنمارک نے حالات کا درست ادراک کرتے ہوئے ڈینش معاشرے میں مساجد کے کردار کے موضوع پر ایک مباحثے کا اہتمام کیا۔
مباحثے میں ڈنمارک کے تمام سیاسی راہنماؤں، سیاسی جماعتوں اور چیدہ چیدہ سماجی شخصیات کو مدعو کیا گیا تھا، جن میں تحریک انصاف ڈنمارک کے صدر کی قیادت میں انکا وفد، تعصب کے خلاف یورپین نیٹ ورک کے کو آرڈی نیٹر باشی قریشی، ممبر پارلیمنٹ بدر شاہ، غیر ملکیوں کے خلاف نفرت روکنے کے ادارے کے صدرقاسم اعجاز، مسلم ڈائیلاگ کے ترجمان زبیر بٹ، اسلامک کلچر سنٹر آما کے صدر گلزار شاہ، ممبر پارلیمنٹ سید اعجاز حیدر شاہ بخاری، صدر پاکستان عوامی تحریک ڈنمارک چوہدری غلام محی الدین، تحریک کشمیر ڈنمارک کے سرپرست میاں منیر، صدر اسلامک کلچرل سنٹر آما گلزار شاہ، سابقہ ممبر پارلیمنٹ ندیم فاروق، ق لیگ ڈنمارک کے صدر، چیئرمین پاکستان کمیونٹی فورم ڈنمارک، ممبر پارلیمنٹ قاسم نذیر احمد، ممبر پارلیمنٹ یاسر احمد، معروف سیاسی لیڈر سید توقیر شاہ، منہاج میڈیکل کونسل کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر عباس شامل تھے۔
خصوصی مقرر نو مسلم ڈینش نوجوان کیسپر مچھیسن تھے جو ڈنمارک کی آرہوس یونیورسٹی میں ڈینش معاشرے میں مسلمانوں کے کردار پہ ڈاکٹریٹ کررہے ہیں انہوں نے بتایا کہ ڈنمارک میں آج سے پچاس سال پہلے پہلی مسجد قائم ہوئی یہاں تین لاکھ مسلمان آباد ہیں جن کی آبادی میں پچھلے دس سال میں چالیس فیصد اضافہ ہوا ان میں سے ستر فیصد ڈینش نیشنلٹی رکھتے ہیں۔
ایک سو اکاون مساجد رجسٹرڈ ہیں لیکن مسلمانوں کو عملی کردار معاشرے میں بہت کم ہے ڈنمارک کا سب سے بڑا مسئلہ مسلمانوں کے خلاف بڑھتی نفرت ہے اسکا حل مساجد کو صرف عبادات تک محدود رکھنے کے بجائے ایک سوشل سنٹر بنانا ہے انہوں نے کہا کہ انٹگریشن کا بہترین حل یہ حدیث ہے کہ اچھا بولو یا چپ رہو اپنے پڑوسی کے ساتھ حلیم بنو اور اچھا سلوک رکھو۔
آخر میں منہاج القرآن کے صدر نے کیسپر کو کتب اور تحائف پیش کئے۔تمام شرکاء نے مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے منہاج القرآن انٹرنیشنل کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ یہ کام منہاج القرآن والے ہی کرسکتے ہیں اور ہم ہمیشہ انکے شانہ بشانہ رہیںگے۔