وارسا:امریکی وائٹ ہاؤس نے صدر جو بائیڈن کے بیانات کی وضاحت کی ہے جس میں انہوں نے روسی صدر ولادی میر پوتین سے اقتدار چھوڑنے کا مطالبہ کیا تھا۔
امریکی حکام نے کہا ہے کہ بائیڈن کا یہ مطلب نہیں تھا کہ وہ روس میں حکومت کی تبدیلی کا مطالبہ کرتے ہیں، جبکہ روسی صدارتی محل کریملن نے کہاہے کہ بائیڈن ایسا مطالبہ نہیں کرنا چاہیے۔ یہ فیصلہ کرنے کا حق صرف صدر پوتین کو ہے کہ اقتدار میں رہیں گے یا نہیں۔
میڈیارپورٹس کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے پولینڈ کے دورے کے دوران روسیوں کو یہ کہہ کر متنبہ کیا کہ شمالی اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن (نیٹو)کی سرزمین کے اندر ایک انچ بھی آگے بڑھنے کے بارے میں نہ سوچیں۔
امریکی صدر بائیڈن نے روسی افواج کے خلاف یوکرین کی مزاحمت کو ”آزادی کی عظیم لڑائی“کا حصہ قرار دیتے ہوئے دنیا سے ایک ”طویل جنگ“کے لیے تیار رہنے کا مطالبہ کیا۔
بائیڈن نے پولینڈ کے دارالحکومت وارسا میں صدارتی محل سے اعلان کیا کہ روس نے جمہوریت کو دبایا، دوسری جگہوں پر بھی ایسا کرنے کی کوشش کی۔
یوکرینیوں کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔امریکی صدر بائیڈن نے یوکرین کے تنازعے کو روس کے لیے ”اسٹریٹجک ناکامی“قرار دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ روسی عوام ”ہمارے دشمن نہیں ہیں۔“
بائیڈن نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ جنگ روس کے لیے ایک تزویراتی ناکامی بن گئی ہے۔میں یہ ماننے سے انکاری ہوں کہ آپ معصوم بچوں اور بزرگوں کے قتل کو قبول کرتے ہیں، یا یہ کہ آپ اسپتالوں، اسکولوں اور زچگی کے طبی مراکز پر روسی بمباری کو قبول کرتے ہیں۔
بائیڈن نے پولینڈ کے دارالحکومت وارسا میں اپنی تقریر کا اختتام کرتے ہوئے تبصرہ کیا کہ ہمارا ایک مختلف مستقبل ہوگا۔ ایک روشن مستقبل جس کی جڑیں جمہوریت، اصول، امید اور روشنی میں ہیں۔