او آئی سی دوارب مسلمانوں کی اجتماعی آواز ہے، شاہ محمود

اسلام آباد:وزیر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بحیثیت سربراہ وزارتی کونسل او آئی سی وزرائے خارجہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ او آئی سی دوارب مسلمانوں کی اجتماعی آواز ہے اور مسلم اقوام اور مسلم دنیا اور عالمی برادری کے درمیان پل کا کردار ادا کر رہا ہے۔

اسلام کی حقیقی اساس بھائی چارے، اتحاد اور یکجہتی کا مظہر ہے،مسلم امہ کے ساتھ برادرانہ تعلقات پاکستان کی خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون ہے۔

اجلاس کا مرکزی خیال اشتراک برائے اتحاد، انصاف و ترقی ہمارا بنیادی مقصد ہے۔

او آئی سی وزرائے خارجہ کانفرنس سے خطاب میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ او آئی سی دنیا کے تقریباً دو ارب مسلمانوں کی مشترکہ آواز ہے، یہ مسلمان اقوام اور عالمی برادری کے درمیان پْل کا کردار ادا کرتی ہے۔

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ امت مسلمہ میں یکجہتی اور تعاون کو فروغ دینا پاکستان کی خارجہ پالیسی کے اہم ستونوں میں سے ایک ہے اور او آئی سی چیئر کی حیثیت سے پاکستان کی کوشش ہو گی کہ وہ اس پل کے کردار کو مستحکم کرے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے اس سے قبل دسمبر میں او آئی سی وزرائے خارجہ افغانستان پر بلائے گئے غیرمعمولی اجلاس میں ملاقات کی تھی جس میں ہم نے افغانستان کے حوالے سے کچھ تاریخی اور ٹھوس فیصلے کیے تھے، ہم نے انسانی بنیادوں پر او آئی سی ٹرسٹ فنڈ کے قیام پر اتفاق کیا تھا اور افغانستان فوڈ سکیورٹی پروگرام کا آغاز بھی کیا تھا۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ نیامے میں او آئی سی وزرائے خارجہ اجلاس میں ہم نے اسلاموفوبیا کا مقابلہ کرنے کا عالمی دن منانے کا مطالبہ کیا تھا اور آج میں امت مسلمہ کو یہ بتاتے ہوئے فخر محسوس کررہا ہوں کہ او آئی سی میں ہمارے اتحاد کی بدولت اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 15مارچ کو باضابطہ طور پر اسلاموفوبیا کا مقابلہ کرنے کے عالمی دن کے طور پر منانے کا اعلان کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے اس اہم معاملے پر اتفاق رائے پیدا کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا اور اس دن کو منانے کی بدولت او آئی سی عالمی سطح پر اسلاموفوبیا کے حوالے سے آگاہی بیدار کر سکے گی اور مشترکہ اقدامات کے ذریعے اس کے حل بھی پیش کر سکے گی۔

انہوں نے کہا کہ ہم عالمی سطح پر بے مثال ہنگامہ خیز حالات دیکھ رہے ہیں، یوکرین میں تنازع نے مشرق و مغرب میں کشیدگی کو دوبارہ جنم دیا ہے جو بین الاقوامی امن اور سلامتی کے لیے خطرہ ہے جبکہ اسلحے کی ایک نئی اور غیرمستحکم عالمی دوڑ جاری ہے۔ان کا کہنا تھا کہ سیاسی اور فوجی دھڑے عالمی استحکام کو داؤ پر لگا کر مزید طاقت کے حصول کے لیے کوشاں ہیں اور ٹیکنالوجی کی جنگوں کے اس بوجھ سے عالمی تجارت اور ترقی میں کمی آرہی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں