اسلام آباد کے سیکٹر ای 11 میں جوڑے پر تشدد کیس میں نیا موڑ آگیا۔ ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی نے ای 11 میں لڑکے اور لڑکی پر تشدد اور ویڈیو بنانے کے کیس کی سماعت کی۔
متاثرہ لڑکے اور لڑکی کے علاوہ مرکزی ملزم عثمان مرزا بھی عدالت میں پیش کیا گیا جبکہ دوران سماعت کمرہ عدالت بند کرکے واقعے کی ویڈیو چلائی گئی۔ جرح کے دوران متاثرہ لڑکی نے کہا کہ جو بیان دینا تھا دے دیا، بار بار دباؤ کیوں ڈالا جا رہا ہے؟ کسی ملزم کو نہیں جانتی، بیان دینے پر کسی سے پیسہ نہیں لیا، ویڈیو وائرل ہونے کے بعد متاثرہ لڑکے سے نکاح ہوا، ویڈیو وائرل ہونے سے قبل متاثرہ لڑکے سے گھر والوں نے رشتہ طے کرایا، نہیں معلوم کہ ایف آئی اے ماہرین نے وائرل ویڈیو کو اصل قرار دیا، کسی بھی پولیس والے سے نہ ملنے سے متعلق میرا گزشتہ بیان جھوٹ تھا۔
اس موقع پر ملزم عمر بلال مروت کے وکیل شیرافضل نے عدالت سے استدعا کی کہ جھوٹا بیان دینے پر متاثرہ لڑکے اور لڑکی کا نام ای سی ایل میں ڈالا جائے۔
جب وکیل نے ایف آئی اے کی فارنزک شدہ ویڈیو میں لڑکی کی آواز اور موجودگی کا سوال کیا تو متاثرہ لڑکی نے کہا کہ دنیا میں 7 چہرے ایک طرح کے ہوتے ہیں، نہیں معلوم آواز میری کیسے ہے، یہ بھی معلوم نہیں کہ جس اسسٹنٹ کمشنر نے بیان ریکارڈ کیا وہ مرد تھا یا عورت۔
جرح کے دوران متاثرہ لڑکے نے کہا کہ پولیس افسر نے سادہ کاغذ پردستخط لیے تھے، ملزمان کو نہیں جانتا، واقعے کے وقت متعلقہ اپارٹمنٹ میں موجودہی نہیں تھا ، وائرل ویڈیو میں جس شخص کے ساتھ زیادتی کی گئی اسے نہیں جانتا، بیان بدلنے کے لیے کسی سے کوئی پیسے نہیں لیے۔
جرح کے دوران متاثرہ لڑکا دیر تک خاموش بھی رہا۔ ملزمان کے وکلا کی جانب سے لڑکے اور لڑکی پر جرح مکمل کرلی گئی ہے جبکہ کیس کی مزید سماعت 25 جنوری کو ہوگی۔