کُچھ تو ہم بھی خیال کریں ۔ بخشی وقار ہاشمی

پتہ ہے دل کب دکھتا ہے؟
برینڈز چیک کرو کہاں سیل لگی ہے۔
سٹیٹس لگاؤ آج ہم نے ایک وقت کے کھانے پر ہزاروں روپے اڑا دیئے۔
گھر بنا رہے ہیں امپورٹڈ ٹائلز لگا رہے ہیں غسل خانے میں۔
بچے کی ضد تھی امپوٹڈ گاڑی لینی ہے اصلی جاپانی اس لئے خرید لی۔
صرف پانچ ہزار کا سوٹ؟ اتنا پیارا؟
چلو لانگ ڈرائیو پر چلتے ہیں آج موسم بہت اچھا ہے کھانا باہر کھائیں گے۔
ارے سگی بہن کی شادی ہے خوب گانے چلاؤ ساری رات ناچو۔
پیسہ اڑاؤ۔
روشنی جہاں ایک ٹیوب لائٹ سے کام چل سکتا ہے نہیں۔ پوری چھت میں چھوٹے چھوٹے آرائشی قمقمے ہونے چاہئیں تاکہ ستاروں کا منظر لگے۔
کوئی تقریب ہے تو ڈیکوریشن پرستان کی ہونی چاہئے۔
سامنے چاہے کوہ قاف کے دیو جیسا خاندان ہو۔
بچے کی سالگرہ ہے۔ کیک کی سجاوٹ فلاں فلم کی ہو۔ اور تھیم بھی وہی ہو۔ سب مہمان اس فلم کے اداکاروں جیسے کپڑے پہن کر آئیں گے سجاوٹ بھی فلم کے سیٹ جیسی ہو۔
بلاوجہ کے دھرنے جلسے جلوس سیاسی اور انہیں روکنے کے لئے پورے پاکستان کی پولیس نفری ایک شہر میں جمع کر کے اس تماشے پر پانی کی طرح اربوں روپیہ بہایا جا رہا ہے۔
اگر یہ پیسہ عوام پر لگتا تو اب تک سیلاب زدگان کے گھر بن چکے ہوتے۔
سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں زندگی بحال ہوگئی ہوتی۔
فصلوں کی کاشت شروع ہوگئی ہوتی۔
پر مسئلہ حل ہوگیا میڈیا سے سیلاب زدگان کی خبریں ہی ختم کر وادیں۔ نہ خبریں ہونگی نہ کچھ کرنا پڑے گا۔ سردی سے ٹھٹھر کے مریں گے لوگ تو آبادی اور غربت دونوں کم ہونگی۔
ایک منٹ کو اگر ہم سوچیں کہ جو پیسہ ہم صرف اپنی جھوٹی شان دکھانے کے لئے استعمال کر رہے ہیں اس کے بارے میں قیامت کے دن پوچھا جائے گا۔ کہ میں نے تجھے مال دیا اس میں غرباء کا بھی حق تھاتو نے انکو حق دیا؟
کیا وہاں ہم یہ کہہ سکیں گے کہ برینڈز کی دکانوں سے جب شاپنگ کر کے نکلے تو ضمیر کو مطمئن کرنے کے لئے پچاس روپے فقیر کو دے دیئے۔
ہمارے ایک سوٹ کی قیمت میں ایک خاندان کا مہینے بھر کا آٹا آسکتا ہے۔
دو سوٹ کی قیمت میں انکے پورے گھر کا راشن آسکتا ہے۔
ایک امپورٹڈ گاڑی کی قیمت میں کسی غریب کا گھر بن سکتا ہے۔
پر ہم یہ کہہ کر خود کو سمجھا لیتے ہیں کہ ان مالز اور دکانوں میں بہت سے غریب لوگ بھی کام کرتے ہیں۔ ہماری بدولت انکی آمدن ہوتی ہے۔ پر یقین کریں جتنی محنت یہ ان بیچاروں سے لیتے ہیں اتنا معاوضہ نہیں دیتے۔
ہمارے مسائل کا حل سادہ طرز زندگی ہی ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں