کشمیر کیسے بیدار ہو

میں نے بہت غور کیا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ھم پوری طرح بیدار نہیں ہو پا رھے ہیں ۔یہ ایک کڑوی حقیقت ہے کہ ہماری قوم سوئی ہوئی ھے اور اسی لیے لوگوں کو ملکی حالات اور واقعات سے کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔ ایک ایسی قوم جس کی آنکھوں میں آزادی کے خواب ہوں اور جس نے اس کی تعبیر پانے کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دیا ہوں اور جس کی آبادی کو دشمن نے یرغمال بنا دیا ہو اور آئے روز اس کی بیٹیوں کی عزت پامال کرتا ہو ،بچوں کو شہد کرتا ہو ،املاک کو تباہ کرتا ہو اور یوں پوری کی پوری آبادی کو مار دینے کے منصوبے بنا چکا ہو اور اس آزادی کی خاطر لاکھوں لوک ہجرت کر چکے ہوں اور لاکھوں شہید اور ھزاروں معذور ہوں اور وہ قوم اس ولولہ اور شوق سے محروم ہو جس کے تحت ملک اور قو میں آزادی حاصل کرتے ہیں ۔اور جن کا معاشرہ انسانی ،مذہبی اور اخلاقی اقدار کو کھو رہا ہو جس کے عوام ہجوم بن کے رہ گئے ہوں۔

اور اس شعور سے عاری ہوں کہ ہمیں کیا کر نا چاہیے بس اپنے اپنے ذاتی اور گروہی مقاصد میں مگن مختلف سمت بھٹک رہے ہوں جن کو اپنے آہنی حقوق اور ذمہ داریوں کی خبر نہ ہو اور اپنے کام کو ذمہ داری اور دیانیداری سے انجام دینے کی فکر نہ ہو اور جہاں رشوت ،کرپشن ،اقربا پروری ،جہالت ،مذہب سے دوری ،نسل پرستی ،فرقہ واریت، گروپ بندی کا دور دورہ ہو وہاں یہ سوچنا کہ ان کو بیدار کیا جائے خواب غفلت سے جگایا جائے ایک دیوانے کا خواب ہی ہو سکتا ہے۔

بنیادی سہولیات کا فقدان اور یہ سب کچھ کے ساتھ ساتھ اکثریت کا اس سے لاعلم رھنا کہ چند سیاست میں چند لوگ ھمارے لیڈر بن کر اس ملک اور ملک کے وسائل کے ساتھ کیسا گھناونا کھیل رہے ہیں جو بیداری کے راستے کی ر کاوٹ ھے۔

ھماری قوم کا حال اس مسافر کی طرح ھے جو سفر تو کرنا چاھتی ھے لیکن اسے صحیح سمت کا پتا نھیں ھے کہ کس طرف یا کس طرح منزل پر پہنچا جائے ، اور یہ سب جب تک ھوتے ھی رہنا ھے جب تک ھم عوام بیدار نا ھوں اپنے انفرادی مسائل میں ھی نا الجھے رھیں – بلکہ خود کو زمہ دار فردثابت کرنے کے لئے عمل میں اتریں گے نہین اور اپنے آئینی قانونی انسانی حق کو پہنچانیں گے نہین ان دنیاوی آقاؤں سے جواب طلب کرنے کی جرت پیدا نہیں کریں گے تو یہ چور کرپشن میں لت پت مجرم ایسے اقدام ھی کریں گے جن سے قوم بیدار نہیں ہو سکے گی ھماری قوم کو بیدار ھو کر اپنے لئے اپنے ملک کے لئے اپنے کل کے لئے کچھ کر نابہت ضروری ھے ورنہ ھم اپنے کی ملک میں قیدیون کی سی زندگی گرانے پر مجبور رھیں گے اور چند لوگوں کا حکمران ٹولہ ھم پر حکومت کر کے مزے ؒلوٹتا رھے گا ھمارے قیمتی وسائل سے صرف اپنی ھی نسلیں سنوارتا رھے گا اور ھم اسی طرح روٹی روزی کو ترستے بھوک ، افلاس ، جہالت ، دہشت گردی ، بے راروی ، آپس کے جھگڑوں میں الجھے رھیں گے اور پانی ،بجلی ،مکان ،روزگار کو ترستے رہیں گے۔

اب یہ جانتے ہیں کہ بیدار قوم کے اوصاف کیا ہیں اور فوری ہم کو کیا کرنا چاھیے کہ ھم اس بیداری کے راستے پے چل سکیں اس ضمن مین جب بیدار قوموں کا جائزہ لیتے ہیں تو ان میں مندرجہ ذیل اوصاف بہت نمایاں نظر آتے ہیں :۔

1:افراد کی تیاری
اقوام کی تعمیر افراد کے ہاتھوں ہی انجام پاتی ہے۔جب افراد تساہل،تن آسانی اور بے فکری کے خوگر ہوجائیں وہیں سے قوموں کے زوال کا آغاز ہونے لگتا ہے۔ یہ فطرت کا ایک غیر متبدل قانو ن ہے کہ انسان اپنی ایک طبعی عمرکے بعد دنیا سے کوچ کرجاتا ہے۔اسی طرح قومیں بھی افراد کی کوتاہیوں کی وجہ سے اپنی تمام حشر سامانیوں، فتح و کامرانی اور شکست و ریخت کے بعد زوال پذیرہوجاتی ہیں۔ موت کے بعد انسان کے عروج و زوال اور شوکت و عظمت کا بھی خاتمہ ہوجاتا ہے۔ مابعدموت انسان کے لئے دنیاکی زندگی کا تصورر بھی محال ہے۔لیکن قوموں کی زندگی اس کلیہ سے مستشنیٰ ہوتی ہے۔ کسی بھی قوم سے وابستہ افراد اپنی سعی و جستجوسے قوم کے مردہ جسم میں روح پھونک سکتے ہیں۔ قوم افراد تیار نہیں کرتی بلکہ افراد کے ہاتھوں قوم کی تعمیر ہوتی ہے۔ یہ سچ ہے کہ آج تک خالق کائنات نے کسی بھی قوم کوبغیر سعی و جستجو کے عروج و کمال عطا نہیں کیا لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اللہ رب العزت نے افراد کو اپنی قوم کے زوال کو کمال میں بدلنے کا ہنر بخشا ہے۔ اگر کسی قوم کے افراد باشعور ہوں تو وہ قوم بھی زندہ و باشعور تصور کی جاتی ہے۔ قوموں کا عروج و زوال اس کے افراد کے علم و شعور سے وابستہ ہوتا ہے۔ قومیں اپنے تمام تر زوال اور شکست و ریخت کے باوجود اوج کمال تک پہنچنے میں کامیاب ہو سکتی ہیں بشر طیکہ ہر شخص قوم کی تعمیر میں اپنا گرانقدر کردار انجام دے۔اقبالؒ فرماتے ہیں ،

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملّت کے مقدر کا ستارہ

قوم کی تعمیر کے لئے فرد کی تعمیرضروری ہے۔تاریخ کا مطالعہ جہاں مسلمانوں کو فخر و تسکین کے سامان فراہم کرتا ہے وہیں مسلمانوں کی ناکامی،نامرادی کی المناک داستانیں بیان کرتے ہوئے ان کے اعصاب پر محرومی اورناامید ی کی ایک گہری چادر بھی تان دیتا ہے۔تاریخ کے مطالعے سے کشید کردہ سامان فخرو تسکین اور احساس ذلت و ناامیدی قوم کے زوال کو کمال میں نہیں بدل سکتا، بلکہ قوت احتساب ہی ایک ایسانسخہ کیمیا ہے جو قوم کو پھر سے مسند عروج و کمال پر بحال کرسکتا ہے۔اس بحث کا مقصد ملت کے عروج و زوال میں کارفرما عناصر بالخصوص علمی وسائنسی انحطاط کا جائزہ لینے کی کوشش ہے جوقوم کی عظمت رفتہ کی بحالی میں معاون ثابت ہوسکتی ہے ۔

2:اپنی حالت بدلنے کاعزم
حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی” ( الراعد: 11)- جب کوئی قوم اپنی حالت تبدیل کرنے پر آمادہ نہیں ہوتی تو اس میں سیاسی سماجی اور معاشی برائیاں اور ناانصافیاں جنم لینے لگتی ہیں جو سماج کو فساد اور انتشار میں مبتلا کر دیتی ہیں – قوم کو استحصال فساد اور انتشار سے باہر نکالنے کیلئے لازم ہے کہ اسکے شعور کو بیدار کیا جائے – شعور کا آسان مطلب آگاہی اور بیداری ہے۔

آج سامراجی نظام پر مبنی سٹیٹس کو اس قدر مضبوط ہو چکا ہے کہ ریاست انتظامیہ عدلیہ پولیس اور دیگر ریاستی ادارے “سٹیٹس کو مافیا “کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں -پاکستان کے عوام بے بس اور لاچار ہو کر مایوسی کا شکار ہو چکے ہیں ان حالات میں بیداری شعور کی ایک نئی تحریک کی ضرورت ہے جو عوام کو باشعور بیدار اور منظم کر کے سامراجی استحصالی نظام کو تبدیل کردے۔

عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں
یہ روز و شب یہ صبح و شام یہ بستی یہ ویرانہ
سبھی بیدار ہیں انسان اگر بیدار ہو جائیں

3:نوجوان نسل کی ترجحات اور معیارات میں تبدیلی
لاشبہ کسی بھی قوم کی باگ ڈور اس کی نئی نسل کے ہاتھ میں ہوتی ہے،جس طرح ایک عمارت کی تعمیر میں اینٹ ایک بنیادی حیثیت رکھتی ہے کہ اینٹ سے اینٹ مل کر عمارت وجود میں آتی ہے،اسی طرح قوم و ملت کی تعمیر میں ہر نوجوان کی اپنی الگ اہمیت ہوتی ہے، جس سے انکار ممکن نہیں۔

افسوس اس بات کا ہے کہ ہماری نئی نسل ایک مصنوعی دنیا میں جی رہی ہے اور اس سے باہر آنے کو تیار ہی نہیں۔ انکی ترجیحات اور معیارات تبدیل ہوچکے ہیں۔آج کے نوجوان کا سماج فیس بک ہے۔ ٹائم لائن جسے وہ اپنی زندگی سے تعبیر کرتا ہے، اس میں وہ اپنی ذات کے خوبصورت پہلوؤں کو سامنے لاتا ہے۔ جو چیزیں اس کے دل کو بھاتی ہیں انہیںشیئر کرتا ہے۔ یہ سب چیزیں نوجوانوں کو ذہنی طور پہ تو آسودہ کر دیتی ہیں لیکن اسے علم اور اپنی ذات کی پہچان سے بہت دور لے جاتی ہیں۔

نئی نسل نفسیاتی پیچیدگیوں اور لاحاصل مسابقتوں کے بھنور میں ہے۔ اپنی جبلتوں کے ساتھ ساتھ اپنی صلاحیتوں کو سمجھنے میں بھی ناکام ہے۔ اپنی موجودہ اجتماعی حالت سے بے نیاز انفرادی طور پر اپنے حالات سے خوشیاں کشید کرنے کی کوشش میں ہے چاہے اس کیلئے اسے کچھ بھی کرنا پڑے۔

اگر ہم واقعی یہ چاہتے ہیں کہ آنے والے دور یعنی مستقبل میں ہمارا کوئی بامعنی و بامقصد کردار ہو تو ہمیں تربیت کے ذریعے نسلِ نو کے شعور میں ایک بنیادی تبدیلی پیدا کرنی ہے۔ وہ تبدیلی یہ ہے کہ ہمیں انہیں مقصد سے آشنا کرنا ہے اور انہیں ان کے منصب کا احساس دلانا ہے۔ جب تک ہم یہ نہیں کرلیتے اس وقت تک ہمارا مقصد پورا نہیں ہوگا اور ہم جو کچھ بھی کرتے چلے جائیں وہ سارا مصنوعی یا روایتی ہو گا، اس سے کوئی واضح تاثیر نہیں ہوگی۔

ترقی ان اقوام کا مقدر بنتی ہے،جن کے نوجوانوں میں آگے بڑھنے کی لگن اور تڑپ ہوتی ہے۔ اگر نسلِ نو قومی مفادات کو ذاتی مفادات پر ترجیح دیتے ہوئے تعمیر ملت کی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں اور معاشرے میں ہر برائی کو اچھائی میں تبدیل کرنے کی ٹھان لیں ،تو تعمیر قوم کی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ دریا میں تنکے کی طرح بہہ جائے گی۔

یہ موضوع اتنا طویل ہے کہ اس پے اقساط کی شکل میں ہی بات کی جاسکتی ھے ابھی اس پے ہی اگر ھم غور کر لیں اور اپنے سفر کا آغاز درست سمت کا تعین کرتے ہوئے اور ان اوصاف کو ساتھ لیتے شروع کریں تو منزل پے پہنچ سکتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں