پاکستان سمیت پوری دنیا میں آج خواتین کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ جس کا بنیادی مقصد نہ صرف خواتین کو ان کے بنیادی حقوق کے بارے میں آگاہی دینا ہے بلکہ ان کی معاشرتی اہمیت کو بھی اجاگر کرنا ہے۔ تقریباً سو سال قبل نیو یارک میں کپڑا بنانے والی ایک فیکٹری میں مسلسل دس گھنٹے کام کرنے والی خواتین نے اپنے کام کے اوقات کار میں کمی اور اجرت میں اضافے کیلئے آواز اٹھائی تو ان پر پولیس نے نہ صرف وحشیانہ تشدد کیا بلکہ ان خواتین کو گھوڑوں سے باندھ کر سڑکوں پرگھسیٹا گیا لیکن خواتین نے جبری مشقت کے خلاف تحریک جاری رکھی۔ خواتین کی مسلسل جدوجہد اور لازوال قربانیوں کے نتیجے میں 1910 میں کوپن ہیگن میں خواتین کی پہلی عالمی کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں 17 سے زائد ممالک کی سو کے قریب خواتین نے شرکت کی۔ اس کانفرنس میں عورتوں پر ہونے والے ظلم واستحصال کا عالمی دن منانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اقوام متحدہ نے 1956 میں 8 مارچ کو عورتوں کے عالمی دن کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا
اللہ کا عظیم احسان کہ اس نے عورت کو تخلیق کیا۔
عورت نے اسلام کو خدیجہؓ کے روپ میں ایک ارب پتی سپانسر دیا۔
عورت نے اسلام کو کربلا سے آگے قیادت فراہم کی۔
۔۔
تاریخ اسلام اٹھا کر دیکھیں
اسلام کی پہلی خاتونِ اول حضرت خدیجہؓ
حضرت آمنہ رمیلہ ، حضرت ام ربیعۃ الرائے بنت شاہ شجاع کرمانی ، حضرت عابدہ ، حضرت فاطمہ منیشا پوری ، حضرت آسیہ خانم ، حضرت ام احسان ، حضرت ام علی ، حضرت رابعہ بصری حضرت ام ہارون ،حضرت بلقیس قرون اولیٰ کی اولیاء اللہ خواتین ہیں جو علم و فضل ، تقویٰ و توکل اور زہد و عبادت میں شہرہ آفاق تھیں جن کے پاس بڑی بڑی نامور ہستیاں اصلاح باطن کیلئے آیا کرتی تھیں۔الحکم خلیفہ اندلس کی فرزانہ و مدبر ملکہ صبیحہ بھی اس سلسلے میں شہرت دوام رکھتی ہیں ۔غرضیکہ مذہبی ، سیاسی ، علمی ، ادبی ، اخلاقی ، روحانی اور جنگی کارناموں کی تاریخ میں آپ کو مرد کے دوش بدوش عورتیں بھی مصروف عمل نظر آئیں گی۔
اگر عورتوں کی علمی فضیلت ، تدین و تدبر ، شجاعت و بہادری اور جہانبانی اور حکمرانی جیسی خصوصیات پر نظر دوڑائی جائے تو عورت کی عظمت و منزلت کا بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے اگر مرد کے خیال کے مطابق عورت ناقص العقل ہوتی تو نوع انسان کی ابتداء ، تہذیب و تربیت عورت کے سپرد نہ کی جاتی اوردنیا کی عظیم شخصیتیں کبھی بھی پروان نہ چڑھتیں۔ مشہور شیخ ابو حفص کا بیان ہے کہ ’’ جب تک میں نے ام علی زوجہ احمد خضرویہ کو نہ دیکھا تھا اس وقت تک میں عورتوں کی جنس کو ہی حقیر سمجھتا تھا اور ان سے باتیں کرنا مکروہ جانتا تھا مگر جب اس پارسا عورت سے ملاقات ہوئی تو مجھے علم ہوا کہ خدا وند تعالیٰ اپنی نعمت معرفت سے جسے چاہتا ہے نوازتا ہے ‘‘ جلیل القدر محدث حضرت حافظ ابن عسا کر کے متعلق بیان ہے وہ فرماتے ہیں کہ ’’ میرے اساتذہ میں اسی(80) سے زیادہ خواتین ہیں ‘‘ جب محمد بن قاسم نے راجہ داہر کو موت کے گھاٹ اتار دیا تو اس کی بہادر رانی نے شکست تسلیم کرنے سے انکار کیا اور مرتے دم تک مقابلہ کیا۔علی مردان خان والی زابلستان کی اکلوتی بیٹی گیتی آرابیگم پہلی مسلمان خاتون تھیں جس نے آٹھویں صدی عیسوی میں عورتوں کو فن سپاہ گری سیکھانے کیلئے باقاعدہ مدرسہ قائم کیا تھا ۔انقلاب روس کے زمانے میں بیگم بو شکریوا نے دشمن کی مدافعت کیلئے ’’ عورتوں کا ایک دستہ اجل ‘‘ تیار کیا تھا۔انقلاب چین میں بھی وہاں کی نوجوان لڑکیوں نے بڑا کام کیا اور بزم سے نکل کر رزم میں داد شجاعت وصول کرنے کیلئے نکل آئیں۔سر زمین فرانس آج بھی جون آف آرک کا کلمہ پڑھتی ہے جس نے انگریز حملہ آوروں کو فرانس سے بھگایا ۔یرموک کی سب سے خطرناک لڑائی میں اگر عورتیں تلوار سوت کر رومیوں پر نہ پل پڑتی تو مسلمان ضرور شکست کھاتے ۔بخارا کے معرکہ میں ترکوں نے مسلمانوں کے پاؤں اکھاڑ دئیے تھے لیکن معرکہ محض عورتوں کی ہمت سے جیتا گیا۔ترابلس کی جنگ میں فاطمہ بنت عبد اللہ نے جس پا مردی اور ہمت کا مظاہرہ کیا اسی بنا پر علامہ اقبال کو اسے ’’ آبروئے ملت ‘‘ کا خطاب دینا پڑا۔جہان بانی اور حکمرانی میں بھی عورتیں مردوں سے کم تر نہیں رہی ہیں ۔شاہ خراسان فخر الدین دیلمی کا انتقال ہوا تو انتظام سلطنت اس کی فاضل اور مدبر بیگم سعیدہ نے سنبھالا ۔ ترکیہ کے سلطان مراد چہارم کم سنی میں تخت نشین ہوا تو وہ حکومت چلانے کااہل نہ تھا اور حالات درہم برہم ہونے لگے تو اس کی بہادر ماں ماہ پیکر ، فرشتہ رحمت بن کر باہر آئی اور انتظام سلطنت خود سنبھا لا ۔خواتین تدین و تدبر میں بھی کسی سے کم نہیں رہی ہیں ۔عورت نہ صرف اپنے تقویٰ و توکل کی بدولت مقرب الی اللہ ہیں بلکہ اپنی روشن ضمیری اور دانشمندی کی بنا پر معین السلطنت بھی رہی ہیں۔
اور پھر موجودہ دور کی بات کریں بے شمار خواتین جنہوں نے نہ صرف خواتین کی سربلندی کے لئے کام کیا بلکہ اپنے کردار کو ملک وقوم کے لئے امر کردیا محترمہ فاطمہ جناح محترمہ بے نظیر بھٹو جن کو اہلِ وطن ہی نہیں دنیا بھر میں بلند مقام حاصل ہوا
علم و ادب ہو یا بزنس سوشل میڈیا خواتین آج مردوں کے شانہ بشانہ کام کررہی ہے
پاکستان کی تاریخ بھری پڑی ہے بیگم رعنا لیاقت علی بیگم بلقیس ایدھی وغیرہ جبکہ شعر و ادب میں پروین شاکر ایک ایسا درخشندہ ستارہ جسکے جانے کیبعد بھی جگمگاہٹ اور لو کم نہ ہوئی
پاکستان کی خواتین آج یورپ اور دنیا بھر میں سیاست علم و ادب اور فیشن ڈیزائنگ اور اسلام کی آبیاری میں بھرپور کردار ادا کررہی ہیں
جن کے نام نہ لکھنا نا انصافی ہوگی
آسٹریلیا سے نگہت نسیم صاحبہ ایک عظیم شاعرہ کالم نگار تجزیہ نگار پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر
جبکہ کینیڈا سے ثمینہ تبسم صاحبہ نثری نظم میں اپنا ثانی نہیں رکھتیں بہترین مکالمہ اور کالم نگار تین کتابوں کی مصنفہ پیشے کے اعتبار سے استاد ہیں
ڈنمارک سے صدف مرزا بہترین شاعرہ اور کالم نگاری میں یکتا کالج کے دور کی بہترین مقررہ
انگلینڈ سے نغمانہ کنول شیخ بہترین شاعرہ اور کئی کتابوں کی مصنفہ
جبکہ فرانس سے ہی کالم نگاری میں ایک بڑا نام شاہ بانو میر صاحبہ جو کہ ناول نگار تجزیہ نگار بھی ہیں اور کئی کتابوں کی مصنفہ ہیں
فرانس سے ہی بہترین شاعرہ اور کالم نگا شمیم خان صاحبہ جو ایک سماجی شخصیت کی حیثيت سے بہت مقام رکھتی ہیں
ان کے علاوہ فرانس سے ہی بےشمار خواتین جو کالم نگآر علم و ادب میں کام کررہی ہیں اور صحافت کے میدان میں بھی نام پیدا کررہی ہیں ان میں مکمل یکسوئی اور لگن پائی جاتی ہے ناصرہ خان صاحبہ جو کئی اخبارات ویب سائٹس سے وابستہ ہیں اور فرانس میں خواتین کے پروگرامز کو بہترین کوریج دیتی ہیں
شبانہ چوہدری صاحبہ جن کی سیاسی حوالے سے پہچان بنی لیکن بعدازاں ایک معروف ویب سائیٹ سے وابستہ ہوکر صحافتی میدان میں خاموشی سے داخل ہوئیں اور اب صحافتی میدان میں سرگرم عمل ہیں اور ملازمت کیساتھ ساتھ صحافت میں بھی نام پیدا کر رہی ہیں۔
جبکہ فیشن ڈیزائننگ میں نیناں خان صاحبہ بہت لگن سے کام کررہی ہیں اور انکے بنائے ہوئے ملبوسات کو فرنچ کمیونٹی میں بہت پزیرائی حاصل ہوئی
خواتین میں بےحد مقبول سیاسی سماجی اور مذہبی شخصیت روحی بانو صاحبہ جو شاعرہ ہیں مزہبی پروگرامز بہت کامیابی سے کرواتی ہیں
طاہرہ سحر صاحبہ کالم نگار ہونے کیساتھ اسٹیج سیکرٹری کے فرائض 92 سے ادا کررہی ہیں
شہلا رضوی صاحبہ کشمیر کی آزادی کے مشن پر کام کررہی ہیں اسکے علاوہ ایک پرائویٹ چینل پر ہوسٹ کے فرائض بھی انجام دیتی رہی ہیں
شاہدہ امجد صاحبہ جو ایک معروف سیاسی شخصیت ہیں انکو نعت کی ادائیگی میں خاص مقام حاصل ہے
وہیں مجھے یہ بتانے میں خوشی ہورہی ہے کہ مجھے فیشن ڈیزائننگ اور پاکستان کے کلچر کو فرانس میں پیش کرنے پر حکومت فرانس کی جانب سے 5 بار ایوارڈ دئے گئے جو کسی اعزاز سے کم نہیں
خواتین آج زندگی کی دوڑ میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرر ہی ہیں آج کے ترقی یافتہ دور میں خواتین کو اپنے حقوق اور اپنے فرائض سمجھنے کی ضرورت ہے اسکے لیئے ایک عورت کا بنیادی تعلیم حاصل کر نا بیحد ضروری ہے