قدرت سے مالا مال مملکت

اللہ تعالی نے اپنے فضل سے پاکستان کو معدنیات سے مالا مال کیا ہے۔ یہی قدرتی وسائل ملک کی اقتصادی اور صنعتی ترقی میں نہایت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ پاکستان ملکی مانگ کا 15 سیکڑو تیل پیدا کرتا ہے۔ باقی 85سیکڑو تیل بیرونی ملکوں سے لیا جاتا ہے۔ پاکستان میں قدرتی گیس کے بڑے ذخائر موجود ہیں۔ پاکستان میں سب سے پہلے گیس کے ذخائر 1952ء میں بلوچستان میں ڈیرہ بگٹی کے کریب سئی نام کے قصبے سے ڈھونڈلیے گئے۔ اس کے بعد سندھ میں پوٹھوہار سے زیادہ 13 جگہوں سے گیس ڈھونڈ لی گئی۔ کالا باغ کے علاقے میں کچے لوہے کے بڑے ذخائر موجود ہیں۔ دوسرے ذخائر چترال اور لنگڑیال (ہزارہ ضلعی میں ایبٹ آباد کے جنوب میں 32کلومیٹروں پر) ڈھونڈے گئے ہیں۔ بلوچستان میں کچا لوہا خضدار، چلغازی اور مسلم باغ میں ملتا ہے۔ پاکستان میں ملنے والا لوہا ملکی ضرورتوں کا صرف 16فیصد پورا کرتاہے۔۔ دنیا میں کرومائیٹ کے بڑے ذخائر پاکستان میں ہیں۔ کرومائیٹ کو بیچ کر زرمبادلہ کمایا جاتا ہے۔ مسلم باغ، چاغی، خاران (بلوچستان)، مالاکنڈ، مہمند ایجنسی اور اتر وزیرستان(خیبر پختونخوا صوبے)میں کرومائیٹ کے بڑے ذخائر ملے ہیں۔ بلوچستان میں تانبے کے بڑے ذخائر موجود ہیں۔ بلوچستان کے ضلع چاغی میں سینڈک کے مقام پر تانبا ملا ہے۔ جپسم، جہلم، میانوالی، ڈیرہ غازی خان (پنجاب) اور کوہاٹ(خیبر پختونخوا) روہڑی (سندھ) اور کوئٹہ، سبی، لورا لائی (بلوچستان) میں ملتا ہے۔سنگ مر مر اور نمک کے ذخائر کے علاوہ کوئلہ بھی پایا جاتا ہے۔ ریکوڈک کے ذخائر تقریبا 1000 ارب ڈالر کے ہیں یعنی پاکستان اپنا قرضہ اتار کر بھی اپنے جیسے 10 قرضے میں ڈوبے ملکوں کا بھی قرضہ معاف کرواسکتا ہے۔ اتنی دولت ہے صرف بلوچستان کے ایک ذخیرے میں۔

فیس ماسک پہننے والے افراد زیادہ پرکشش نظر آتے ہیں: نئی تحقیق
یاد رکھیں ہر سال پاکستان 2 یا 3 ارب ڈالر کی قسط آئی ایم ایف سے وصول کرتا ہے جو بہت اہم ہوتی ہے ملک چلانے کے لیے اور بدلے میں ملک آئی ایم ایف کی منشاء پر چلایا جاتا ہے یعنی ملک ایک طرح گروی رکھ دیا جاتا ہے

آئی ایم ایف کو، اب جس صوبہ میں 1000 ارب کے ذخائر صرف ایک جگہ سے نکلے ہو تو ذرا سوچو اس ملک کی حکومت کو اس صوبہ کے عوام کو بدلے میں کیا دیتی ہے؟ پسماندگی، مسخ شدہ لاشیں، غداری کا ٹائٹل اور ساتھ انکی دولت کو لوٹ کر باہر اپنے جزیرے خریدنا ساتھ وہاں کے سرداروں کو 2% حصہ دیکر احسان بھی کردینا؟

وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کورونا وائرس کا شکار ہو گئے
اور ریکوڈک سے پہلے سینڈک، سوئی گیس، کوئلہ، یورینیم (کوہ سلیمان کے بلوچ قبائلی علاقوں میں خاص قسم کا یورینیم نکلا اگر وہ نہ ہوتا تو آج پاکستان ایٹمی طاقت نہ ہوتا۔ گوادر ہو یا دوسرے قدرتی ذخائر بلوچستان مالا مال خطہ ہے جس پر پوری دنیا کی نظریں اس وقت پڑی ہیں یہ وہ خطہ ہے جسکی دولت کو پانے کے لیے تیسری عالمی جنگ کا خطرہ ہے۔کیونکہ بلوچستان کے ساحل کے ذریعے ہی آسان اور فائدہ مند راستہ بنتا ہے جسکے ذریعے وہاں پہنچا جاسکتا ہے جہاں دنیا کے کل تیل کے ذخائر میں سے 60% موجود ہیں۔ ان کو آج تک کوئی استعمال میں نہیں لاسکا۔ باقی 40% تیل کے ذخائر استعمال میں آچکے ہیں۔ دنیا کے مختلف ممالک 40% تیل سے اپنی معیشت چلا رہے ہیں مزید اس معیشت اور ترقی کو سہارا دینے کے لیے تیل کی کمی ہورہی ہے۔ اس کمی کو جو پورا کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کریگا وہی مستقبل میں دنیا کی سپر پاور کہلائے گا۔ گوادر کی ذریعے ہی بڑی طاقتیں وسطی ایشیاء سے جڑ کر اپنی تجارت کرکے اربوں کھربوں ڈالر کا کاروبار کرسکتی ہیں۔ مطلب گوادر پورٹ جسکا ہوگا وہی مستقبل کی سپر پاور ہوگی۔ بلوچستان جسکا وہی دنیا پر راج کریگا۔ اب اس تاج کو پانے کے لیے بہت بڑا عالمی معرکہ تیار ہورہا ہے۔ ہر بادشاہ اپنے سر پر یہ تاج سجانا چاہتا ہے۔ لیکن بلوچوں کی بدقسمتی دیکھو جنکی دولت ہے مگر وہ آج بھی 14ویں صدی والا دور میں رہ رہے ہیں۔

اسلامی فنانس کا فروغ: اسٹیٹ بینک نے گلوبل ایوارڈ جیت لیا
اس لیے تو خان آف قلات نے کہا تھا کہ ہر بلوچ کے پاؤں تلے منوں سونا ہے اگر بلوچستان خودمختار خطہ ہوتا تو ہر بلوچ خلیجی ممالک کے شیخوں جتنا امیر اور شان و شوکت سے زندگی گزار رہا ہوتا۔ بلوچستان کی دولت کو اگر بلوچستان کے تمام افراد پر تقسیم کیا جائے تو ہر بلوچ کی دولت خلیجی ممالک کے حکمران کی دولت جتنی بنتی ہے۔ آج وہ سب باتیں سچ نظر آرہی ہیں۔ بدقسمتی سے آج بلوچ تیل کی سمگلنگ کرکے خطروں سے گزر کر تیل کو بیچ کر صرف 500 کما کر روٹی کا خرچہ بمشکل پوری کرتا ہے۔ مطلب آج بلوچ کی دولت دو وقت کی روٹی جتنی بھی نہیں۔ لیکن پاکستان کے باقی عوام بلوچوں پر پتہ نہیں کیا کیا الزامات لگا کرانہیں ہمیشہ غلط ثابت کرتے آرہے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں