جرمنی سے ہماری فیملی اور شہر کا پرانا تعلق ہے۔ اس ملک میں پچھلی کئی دہائیوں سے ہماری فیملی ممبرز اور دوست احباب قیام پذیر ہیں۔
1978 میں والد صاحب نے جوانی کے خوبصورت سال یہاں گذارے، خوب محنت کی اور تین چار سال بعد ملک واپسی کا راستہ اختیار کیا۔ پاکستان آکر شادی کی، گھر بنایا اور نیا کاروبار شروع کیا۔ ہمارے شہر کے اکثریتی کاروباری طبقے کی طرح، لٹل مانچسٹر سمجھے جانے والے جلالپور جٹاں میں پاور لومز کا کارخانہ لگایا۔
پاکستان میں 90 کی دہائی کا سیاسی عدم استحکام، انرجی کرائسز، غلط معاشی پالیسیز، چائینہ کے عروج اور گلوبلائزیشن کے باعث کاروبار تباہ ہوئے تو کباڑ کے بھائو پاور لومز بیچ کر ایجنٹ کے زریعے ایران ترکی اور یوکرائن کی سخت ترین ڈنکی کے بعد 1996 میں جرمن پہنچے۔
ایک بار پھر سخت محنت کی اور چند سالوں میں ایک بار پھر اپنے پائوں پر کھڑے ہو گئے۔ سن دو ہزار میں پرتگال اور سپین کی امیگریشن کی ٹرائی کی اور بالآخر سپین کے کاغذات لینے میں کامیاب رہے۔اور ٹھیک ایک سال بعد ہمیں سپین بلانے کے لیے کاغذی کارروائی کا آغاز کر دیا۔
کچھ سالوں بعد پاکستان سے یورپ کے سفر کے دوران ہمارا پہلا پڑاؤ فرینکفرٹ ہی تھا، اس کے بڑے بڑے ٹرمینلز کو کنیکٹ کرتی نیلی ٹرینیں ابھی تک یادوں میں زندہ تھی۔اگر والد صاحب کے حساب سے دیکھوں تو 41 سال بعد اور اپنے آپ کو کو دیکھوں تو اٹھارہ سال بعد دوبارہ اسی شہر میں کھڑا ہوں جہاں سے سب شروعات ہوئی۔
حالانکہ یہ شہر دوسری جنگ میں مکمل طور پر تباہ ہو گیا تھا مگر پھر بھی فرینکفرٹ میں بڑے یورپین دارلخلافہ جیسی گریس ہے، اس کی فضا سے طاقت اور اعتماد کی خوشبو آتی ہے۔ اس کی بلند و بالا عمارات نیویارک کا مقابلہ کرتی ہیں، اس کے دریا کا اپنا رعب و دبدبہ ہے اور اس کے لوگوں کے چہروں پر چھائی سنجیدگی اور متانت ظاہر کرتی ہے کہ انکے کندھوں پر بڑی ذمہ داریاں ہیں کیونکہ یہ یورپین اسٹیٹ بنک سمیت سیکڑوں ملٹی نیشنل کمپنیوں کا بڑا تجارتی مرکز ہے۔
فرینکفرٹ کی آبادی تقریبا 8 لاکھ ہے جو کہ بارسلونا سے آدھی ہے اور اس شہر کی خاص بات ہے یہ ہے کہ اس کا تقریباً 40 فیصد حصہ پارکز اور گرین ایریا پر مشتمل ہے۔بلاشبہ شہر دیکھنے اور گھومنے کے لائق ہے اور شہر میں رہنے والے باذوق ہیں۔