زندگی کے ہاتھ وقت کے قلم سے ہمارے لمحوں کا حساب لکھتے رہتے ہیں۔۔وقت کے ہاتھ دنیا کے عمیق سمندر میں انسان کی زندگی کی کشتی کے چپو چلاتے رہتے ہیں حالات کے طوفانوں سے لڑتے ہوئے فنا کی کشتی پر سوار انسان بقا کی فکر میں رہتا ہے اور آخر کار اجل کے گرداب میں ڈوب کر فنا ہو جاتا ہے۔ درحقیقت اجل کے ہاتھ اسے ایک اور سمندر میں دھکیل دیتے ہیںاس سفر کے متعلق کوئی نہیں جانتا بس اتنا ہی جتنا رب تعالی نے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتایا۔اور سچ تو یہ ہے کہ موت تو آغاز ہے ہمیشہ رہنے والی زندگی کا۔رب کی تخلیق خاکی بشر اشرف المخلوق انسان۔جسے بڑی محبت سے تخلیق کیا اور اس خاکی بشر کے سامنے فرشتوں کو سجدہ کرنے کا حکم دیا۔ اتنی محبت۔ خالق کائنات کی اس تخلیق کا مقصد اپنے نوری بشر حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے ساری خلق کو پیدا کیا اور اسے ہر مخلوق سے افضل قرار دیا۔اربوں کھربوں خاکی پتلے بس زندگی کی دہلیز پر عمر گنوا کر اس دنیائے فانی سے رخصت ہو کر خاک میں مل کر خاک ہو جاتے ہیں مگر انسانوں میں کچھ مخصوص بشر ہی اشرف المخلوق کہلائے جاتے ہیں جن کے جسم خوابیدہ نہیں ہوتے وہ اپنی نادیدہ روح کے وجود سے واقفیت رکھتے ہیں اور اپنے خاکی جسم میں روحانی روح کے بوجھ کو اٹھائے ایسی راہ کے راہی ہوتے ہیں جہاں انکا سفر تو خاک پر طے ہوتا ہے مگر ان کی کھوج کا رخ کچھ اور ہوتا ہے وہ نور کی کھوج میں رہتے ہیں ان کی گھٹی میں پڑی کھوج ان کے دل کی اضطرابی دھڑکنوں کو مضمحل رکھتی ہے وہ اپنے اصل کی کھوج میں اندر ہی اندر گم زندگی کی مسافتوں کو طے کرتے ہیں۔۔جب تک عشق کی بے قراری سے روح کی سانس کی ہر لئے پر اللہ کا ورد جاری نہیں ہوتا دل کی مضطرب دھڑکنوں میں تال میل نہیں بنتا اور جب تک اللہ کے در پر سر نہ جھکے جسْم اضطراب میں رہتا ہے۔دل بے چین اور روح بے قرار رہتی ہے۔ خاک کو نور کے سامنے جھکے بنا قرار نہیں۔ کیونکہ ازل سے خاک میں نور کے عشق کو گوندھ دیا گیا ہے۔ عشق خاکی کی فطرت ہے۔ خاکی ساری زندگی محبت کے نورانی اور روحانی لمس کی کھوج میں رہتا ہے۔ اسکی ہر سوچ کی ابتدا اللہ سے شروع ہوتی ہے اور اللہ پر ہی ختم ہوتی ہے۔ دنیاوی محبتیں اسکے خاکی جسم کو اور روح کو اضطراب بے چینی دیتی ہیں جبکہ نور کی چاہ لیے کیفیاتِ عشق میں مبتلا ہو کر سجدے میں اپنے ہونے کے احساس کو پالینا۔اور اپنے اللہ ربْ العزت کے سامنے سجدہ ریز ہونے کے بعد اسکے اندر اٹھنے والی بے چینی کی اضطرابی لہریں ختم ہو جاتی ہیں کیونکہ طلب کے دائرے میں بے طلب پھرتے پھرتے چلتے چلتے کھوجتے کھوجتے اسے بے اختیار اچانک سجدے میں مطلوب مل جاتا ہے اور پھر جونہی اسکی کھوج ختم ہوتی ہے وہ مطلوب ہستی میں گم ہو جاتا ہے اور فنا ہو جاتا ہے۔ اور بقا پا جاتا ہے۔
یہاں پر ہی وفا کا راز کْھلتا ہے
فنا میں ہی بقا کا راز کْھلتا ہے
جھکا کر شاز سجدے میں یہ سر دیکھو
یہیں پر تو خدا کا راز کْھلتا ہے ‘‘