سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے فوجداری قانون میں ترامیم مسترد کردیں اور کہا کہ وزارت قانون و انصاف نےاسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بغیر فوجداری ترامیم پیش کیں، ایسی ترامیم سے نظام مزید بوسیدہ ہوجائےگا۔
سپریم کورٹ بارکی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ وزارت قانون و انصاف نے اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بغیر فوجداری ترامیم پیش کیں، ایسی فوجداری ترامیم سے موجودہ نظام مزید بوسیدہ ہو جائےگا، وزیر قانون نے ایسی فوجداری ترامیم کر کے اپنی نا اہلی ثابت کی ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ وزارت قانون کو اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کرنا چاہیے تھی، وزارت قانون کی ترامیم محض نظر کا دھوکہ ہیں، فوجداری قوانین کی ترامیم تجویز کرنے کے لیے پارلیمانی کمیٹی سے بھی مشاور ت نہیں کی گئی جو قابل مذمت ہے۔
ترمیم کے مطابق ملزمان کے معائنے کے لیے میڈیکل بورڈ میں ماہر نفسیات شامل ہوں گے، ایس ایچ او کے لیے گریجویشن کی ڈگری لازمی ہو گی اور جہاں مقدمات کا بوجھ زیادہ ہو گا وہاں ایس ایچ او ، اے ایس پی رینک کا ہو گا۔
مجوزہ فوجداری ترمیمی قوانین کے مطابق مفرور ملزمان کے شناختی کارڈ اور بینک اکاؤنٹس بلاک کر دیے جائیں گے جبکہ جلسے جلوسوں میں اسلحہ لے کر جانے کی اجازت نہیں ہو گی، دفعہ 161 کے تحت ہونے والے بیانات کی آڈیو ویڈیو ریکارڈنگ بھی کی جائے گی، پراسیکیوٹر تفتیش سے مطمئن نہ ہو تو مزید یا ازسرنو تحقیقات کا کہہ سکے گا۔
ترامیم کے مطابق فوجداری مقدمات کا ٹرائل 9 ماہ میں ہو گا، ہر ماہ ہائیکورٹ کو پیشرفت رپورٹ جمع کرانی ہو گی، غیر سنجیدہ مقدمہ بازی پر سیشن کورٹ 10 لاکھ روپے تک جرمانہ کر سکے گی اور 9 ماہ میں ٹرائل مکمل نہ ہونے پر ٹرائل کورٹ ہائیکورٹ کو وضاحت دینے کی پابندی ہو گی، ٹرائل کورٹ کی وضاحت قابل قبول ہوئی تو مزید وقت دیا جائے گا۔
بل میں یہ بات بھی شامل کی گئی ہے کہ ٹرائل کورٹ میں گواہان کے بیانات کی آڈیو ویڈیو ریکارڈنگ کی جائے گی، گواہ بیان کے ٹرانسکرپٹ سے اختلاف کرے تو ریکارڈنگ سے استفادہ کیا جائے گا، گواہ عدالت نہ آ پائے تو ویڈیو لنک پر بیان ریکارڈ کروا سکیں گے جبکہ بیرون ملک مقیم گواہان بھی مجاز افسر کی موجودگی میں بیان ریکارڈ کروا سکے گا۔