پشاور:پشاور ہائی کورٹ میں سینٹ،قومی اور صوبائی اسمبلی کے ارکان کے لیے پی ایچ ڈی یا کم از کم ماسٹر تک تعلیم کی شرط مقرر کرنے کیلئے رٹ پٹیشن دائر کردی گئی۔
رٹ پٹیشن محمد فرقان قاضی نے سیف اللہ محب کا کا خیل ایڈووکیٹ کی وساطت سے دائر کی ہے جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ ممبر صوبائی اسمبلی،ممبر قومی اسمبلی اور سینیٹرز کی تعلیم 2002 آرڈر میں بی اے رکھی گئی تھی جسکی وجہ سے کافی امیدواروں نے جنرل الیکشن میں جعلی اسناد جمع کی تھیں اور انکو آخر کار اعلیٰ عدالتوں نے نااہل کر دیا اور کچھ کو تو سزا بھی ملی لیکن کچھ عرصہ بعد 2002 آرڈر میں ترمیم کر دی گئی اور بی اے کی شرط ختم کر دی گئی جسکی وجہ سے ایک ان پڑھ شخص بھی الیکشن لڑ سکتا ہے۔اس ترمیم کا مقصد موروثی سیاست کرنے والوں اور پیسے والوں کو واپس سیاست میں لانا تھا۔
رٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ بی اے کی شرط ختم کرنا بدنیتی پر مبنی ہے اور اب چونکہ تعلیم کی شرح زیادہ ہو گئی ہے اس وجہ سے تعلیم کی شرط پی ایچ ڈی یا کم از کم ماسٹر ہونی چاہئے چونکہ ایک ان پڑھ اُمیدوار نہ تو اپنے حلقے کی اسمبلی میں نمائندگی کر سکتا ہے اور نہ اُنکے مسائل حل کرنے کے لیے آواز بلند کر سکتا ہے چونکہ قوانین اردو اور انگلش میں پاس ہوتے ہیں اور ان قوانین کو اسمبلی کے فلور پر نہ تو ڈسکس کیا جاتا ہے اور نہ ہی کوئی ترمیم تجویز کی جاتی ہے۔ جسکی وجہ سے بہتر قانون سا زی نہ ہونے سے ملک کا نظام درہم برہم ہو رہا ہے۔
این جی اوز سے ممبران قانون لیکر اسمبلی میں پیش کرتے ہیں جسکو بدنیتی سے اسمبلی سے پاس کیا جاتا ہے اور سوشل سیکٹرز کے لوگوں کو نوکریاں دی جاتی ہیں اور ادارے بنا کر صرف پیسے ہی بٹورے جاتے ہیں اور خزانے پر بوجھ بڑھتا جاتا ہے۔ رٹ میں کہا گیا ہے منسٹرز کی پورٹ فولیو کی بھی بات کی گئی ہے کہ منسٹری صرف اور صرف اس ممبر کو دی جائے جو اس شعبے میں مہارت رکھتا ہو جیسے کہ منسٹری آف ہیلتھ، منسٹری آف لا، منسٹری آف ایگریکلچر اور ایجوکیشن وغیرہ اور ایسے ممبران کو ان وزرات سے دُور رکھا جائے جن کے پاس نہ تو تعلیمی قابلیت ہے اور نہ ہی مہارت رکھتا ہوں،