بھکاری مائینڈ سیٹ تحریہ ابن اعوان

بھکاری مائنڈ سیٹ پچھلے چار مہینے سے جیپ میں پچیس ہزار ڈال کر گھوم رہا ہوں فارم کو اندر سے ٹِیپ اور چونا کروانا ہے۔ اتنے بڑے گاؤں میں کسی کا موڈ نہیں یہ سب کرنے کو۔ اسی گاؤں کے کسی بھی چوراہے میں اگر پچیس ہزار کا راشن بانٹوں تو پندرہ منٹ سے پہلے پہلے لوگ اُچک کر لے جائیں گے۔ یہ تجربہ بھی اپنی لیبارٹری میں کرنے کے بعد پوری تحقیق سے بات کر رہا ہوں۔ تصویریں حاضر ہیں۔ جو لوگ فارم پر رہتے ہیں کل میرے پاس اپنے شناختی کارڈ لیکر آئے کہ کسی سرکاری نمبر پر sms کر دو، سنا ہے مفت آٹا مل رہا ہے۔ میں نے کر دیا مگر ساتھ یہ پیشکش دی کہ بجائے ان چکروں میں پڑنے کے یہ کام کر لو اور اپنی آمدن بڑھا لو تو انہوں نے آگے سے ہنس کر دکھا دیا۔ انکے گھر دو مرد ہیں جو سارا دن چارپائی توڑتے ہیں کام چونکہ زیادہ سخت نہیں ہوتا، اِنکی خواتین ہی کر لیتی ہیں۔ یہ طرز عمل صرف اس ایک گاؤں تک محدود نہیں یہ تو چونکہ بطور ٹیسٹ کیس میرے تجربات کا محور ہے اسلیئے اس کا تذکرہ بار بار آتا ہے۔۔۔آپ ٹیوی کھول کر دیکھ لیجیئے۔۔۔جب سے رمضان شروع ہوا ہے چھوٹے بڑے خیراتی اداروں کے بیچ زکوٰۃ کی چھینا جھپٹی چل رہی ہے، میڈیا پر طرح طرح کی مارکیٹینگ کمپینز پر باقاعدہ لاکھوں خرچ کر کے زکوٰۃ مانگی جا رہی ہے۔ انمیں سے کتنے ہیں جو روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں کوشاں ہیں۔

باہر دروازے پر روز ایک درجن سے زائد بھکاری دستک دیتے ہیں۔ اکثریت ہٹی کٹی ہے۔۔۔تھوڑا اور اوپر دیکھئیے تو آپکو imf اور اپنے حکمران نظر آتے ہیں۔ imf والے کہتے ہیں پہلے چار دوسرے ملکوں سے مانگ کر اتنا پیسہ اکٹھا کر کے دکھاؤ پھر ہم تمہیں کُچھ مزید دینگے۔ حکمران یہ ساری تذلیل برداشت کرنے کو تیار ہیں مگر نہ تو اپنے خرچے کم کرنے پر آمادہ ہیں اور نہ ہی ملک کی آمدن بڑھانے کی کوئی تدابیر کا جوکھم اُٹھانے کو تیار دکھائی دیتے ہیں۔ ان سب کو غیرت کا بلیدان دیکر کاسہ اٹھانا کتنا آسان لگتا ہے۔ پیغمبر کی تربیت بھلائے بیٹھے ہیں۔ جنہوں نے خیرات کی رقم ہاتھ میں تھمانے کی بجائے کلہاڑا ہاتھ میں دیا کہ جاؤ جنگل سے لکڑیاں کاٹو اور اپنی تقدیر خود بدلو۔ جنہوں نے مزدور کی مزدوری کو اُسکے پسینے سے مشروط کیا۔۔۔۔اِقبال کا دیا تمام درسِ خودی بھی غالباً انکے لیئے نہیں بلکہ چائینہ والوں کے لئے تھا اسلیئے انکا کُچھ نہیں بگاڑ سکا۔۔۔میں نے اپنی مختصر سی زندگی میں کتنے ہی لوگوں کو صدق دل سے محنت مزدوری کرتے اور پھر غنی ہوتے دیکھا۔ جو مانگنے تانگنے کی افیون پر لگ گئے، وہ نسلوں سے مانگ رہے ہیں مگر آج بھی مفلس ہیں۔ مانگ کر کوئی کب یہاں غنی ہوا ہے؟ اس مائنڈ سیٹ سے کیسے چھٹکارا حاصل کیا جاۓ؟ کیسے احساس پروگرام، بینظیر انکم سپورٹ، لنگر خانوں، مفت آٹوں سے ہانک کر لوگوں کو کھیت، کھلیان، فیکٹری اور دستکاری کی طرف لایا جاۓ؟ ان سب سوالوں کا جواب تاحال میرے پاس نہیں۔ شائد ایک دن آئے جب ہر طرف سے بھیک ملنا مکمل بند ہو جائے تو بلآخر لوگ مجبور ھو کر کام کی طرف آئیں۔

تحریر: ابن اعوان

اپنا تبصرہ بھیجیں