موت برحق ہے اور ہر ایک کو اس کا مزا چکھنا ہے۔ ہر روز لاکھوں لوگ اس دنیا سے رخصت ہوتے ہیں لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جن کے جانے سے ہر آنکھ اشکبار ہوتی ہے، ہر دل دکھی ہوتا ہے اور شہر ویرانی کا منظر پیش کرتا ہے۔ یہی عالم میرے بھائیوں سے بھی عزیز دوست شفیق الرحمان سنی کے اس جہان فانی سے رخصت ہونے پر ہوا ہے۔
یہ غالباً 1996 کی بات تھی جب میری ان سے پہلی ملاقات ہوئی۔ اس وقت ان کا سٹاک ہوم کے سینٹرل اسٹیشن میں ویڈیو گیمز کا کافی بڑا سلسلہ تھا۔ سٹاک ہوم میں رہتے والے ایک جاننے والے بتایا کہ آپ کو یہاں سیالکوٹ کے ایک نوجوان سے ملواتے ہیں۔ اس پھرتیلے نوجوان شفیق الرحمان سے مل کر بہت اچھا لگا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ سیالکوٹ شہر کے کریم پورہ، چاہ جٹاں روڈ کے رہنے والے ہیں۔ یہ سیالکوٹ کا مرکزی علاقہ ہے اور وہاں میرے کئی جاننے والے اور عزیز رہتے تھے جن میں شہید کشمیر محمد مقبول بٹ شہید کے قریبی ساتھی، جموں کشمیر محاذ رائے شماری اور جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے مرکزی راہنما اور ہفت روزہ ولر کے ایڈیٹر بھی رہتے تھے۔ وہاں میری اہلیہ کے کزن عمران اور رضوان بھی رہتے تھے اور ان کے ماموں شاہد میر جو بعد میں دو مرتبہ ڈسٹرکٹ بار ایسوسی سیالکوٹ کے صدر بھی منتخب ہوئے تھے۔ یہ سب لوگ شفیق الرحمان سنی کے بہت قریبی دوست تھے اس طرح ہماری دلچسپوں میں یکسانیت نے ہمیں اور قریب کردیا۔ کچھ عرصہ شفیق الرحمان امریکہ چلے گئے اور ہمارا رابطہ منقطع ہوگیا۔
ایک طویل عرصہ بعد غالباً 2019 میں پاکستان میلہ کمیٹی کے تحت ایک اجتماع میں عزیزم عثمان رحمت علی نے ان سے تعارف کراتے ہوئے کہا کہ ان سے ملیں یہ بھی سیالکوٹ سے ہیں۔ میں نے ان سے دریافت کیا کہ آپ سیالکوٹ کے کا علاقہ سے ہیں۔ انہوں کہا کہ “چاہ جٹاں روڈ” ۔ یہ سننا تھا کہ میرا ذہن فورا 1996 میں چلا گیا اور میں نے بے اختیار کہا کہ “تم سنی ہو؟” جواب دیا “جی بھائی جان” میں نے کہا اتنا عرصہ کہاں رہے؟ عثمان کا بہت شکریہ کہ انہوں پھر سے ملوایا۔ اس ملاقات میں بہت باتیں ہوئیں اور دلی خوشی بھی ہوئی۔
اتفاق سے ہم بھی سٹاک ہوم کے اسی علاقہ میں منتقل ہورہے تھے جہاں شفیق الرحمان رہتے تھے۔ ایک ہی علاقہ میں رہنے کی وجہ سے تعلقات میں اور بھی قربت آتی گئی اور ملاقاتیں باقاعدگی سے ہونے لگیں۔ میں نے محسوس کیا کہ ان کا حلقہ اثر بہت وسیع تھا اور پاکستانیوں کے ساتھ دیگر ممالک کے لوگوں اور سویڈن کے مقامی باشندوں کے ساتھ ان کے بہت دوستانہ تعلقات استوار تھے۔ وہ ہنس مکھ، بہت فیاض، مہربان، خدمت خلق کے جذبہ سے سرشار، مہمان نواز اور ملنسار شخصیت تھے۔ وہ دوسروں کے ساتھ بہت شفیق اور رحمدل تھے یعنی اپنے نام شفیق الرحمان کی عملی تصویر تھے۔
ان کے دوستوں کا حلقہ بہت وسیع تھا جس میں پاکستانی، سویڈش، عربی، افریقی، ازبک، بوسنیا اور دیگر ممالک کے لوگوں کے ساتھ گہرے دوستانہ تعلقات تھے۔ ہر ایک یہی سمجھتا تھا کہ وہ میرے سب سے اچھے دوست ہیں۔ میرے ساتھ ان کا بہت گہرا تعلق تھا جو دوستی کے ساتھ بھائیوں جیسا تھا۔ ان کے ساتھ بہت قدریں مشترک تھیں جن میں ایک ہی شہر اور قبیلے سے تعلق ہونا بھی شامل ہے۔ جب بھی مجھے ان کی ضرورت ہوئی یا کوئی بھی معاملہ ہوا، وہ بلا تاخیر پہنچتے۔ گذشتہ سال جب ہمیں کورونا ہوا تو انہوں نے ہمارا بہت زیادہ خیال رکھا اور ہر روز رابطہ کرکے مزاج پرسی کرتے تھے۔
اکثر لوگوں کی زندگی میں ایک لمحہ ہے جب ان کی زندگی کا محور بدل جاتا ہے۔ سنی کی زندگی میں وہ لمحہ تب آیا جب ان کے والد سویڈن آئے آور ان کی طبیعت یہاں ناساز ہوگئی تھی۔ والد کی نصیحت کا کچھ اثر لیا کہ زندگی کا انداز ہی بدل گیا۔ عمرہ کی سعادت حاصل کی اور پھر صوم و صلوۃ کے پابند ہوگئے۔ اپنی ورکشاپ پر ایک کمرے کو مسجد کی شکل دی اور وہاں نماز ادا کہ جاتی تھی۔ مستحق افراد کی مدد کے لئے ہمیشہ کوشاں رہتے۔ اخوت سویڈن کے ساتھ منسلک تھے اور بھرپور تعاون کرتے تھے۔ دوران سفر وہ قرآن حکیم کو ترجمہ کے ساتھ سنتے تھے۔ فہم دین کے بہت متلاشی رہتے تھے۔ اپنی بیٹیوں کو اسلامی تعلیمات سے روشناس کرانے کے لئے کوشش کرتے رہتے تھے۔ بچوں کی اسلامی تعلیم و تربیت کے لئے میری کتاب کا جب سویڈش زبان میں ترجمہ شائع ہوا اور میں نے انہیں دیا تو بہت خوش ہوئے۔ ان سے آخری ملاقات میں دین اسلام کے حوالے سے باتیں ہوئیں۔ انہوں نے بہت سے معاملات پر استفسار کیا۔ اس ملاقات میں میرے داماد منیب بشیر چوہدری بھی ساتھ تھے اور یہ بہت خوشگوار ملاقات ہوئی لیکن کسے معلوم تھا کہ یہ آخری ملاقات ہوگی۔ ۔ 20 نومبر کو ہم سٹاک ہوم میں یوم اقبال منارہے تھے جس میں انہوں نے بہت دلچسپی کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ اس کے انتظامات میں میرے ساتھ ہوں گے لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ 15 نومبر کو ان فون آیا اور بتایا کہ وہ کورونا میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ میں نے ان کی ہمت بندھائی اور کہا کہ اللہ نے چاہا تھا جلد صحت یابی ہوگی۔ بیماری کے بعد چند دن وہ گھر پر رہے اور اس دوران ان کی مزاج پرسی ان کی اہلیہ کے ذریعے کرتا ہے۔ طبیعت بگڑنے کے بعد انہیں ہسپتال منتقل کرنا پڑا۔ وہاں ان کی طبیعت اور بگڑ گئی اور انہیں انتہائی نگہداشت کی وارڈ میں منتقل کرنا پڑا۔ موت کے آگے کس کا بس چلتا ہے اور پھر 54 سال اس جہان فانی میں رہنے کے بعد 9 دسمبر کی صبح وہ اپنے خالق حقیقی کی بارگاہ میں حاضر ہوگئے۔ ایک ہنستا مسکراتا شخص موت کے منہ میں چلا گیا اور دوستوں کی محفلوں کو ویران کر گیا۔ 14 دسمبر کو انہیں نماز جنازہ کے بعد سپرد خاک کریں گے۔
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں
وہ خدا کی مخلوق کے ساتھ بہت مہربان تھے اور ان کی مشکلات حل کرنے کے لئے کوشاں رہتے تھے۔ رب کریم بھی ان کے ساتھ مہربان ہو اور ان کی مشکلات آسان کرے۔ انہیں کروٹ کروٹ جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔ امین یارب العالمین