بابا فرید الدین گنج شکر کون تھے ؟

بابا فرید الدین گنج شکرؒ
سرزمین پنجاب جو اپنے پانچ دریاﺅں کی روانی اور زرخیزی کی وجہ سے کل خطہ اراضی میں ایک امتیازی و انفرادی شان رکھتی ہے وہیں اس سرزمین کے چپے چپے سے ہدایت و روحانیت کے دریا بھی رواں رہے ہیں۔

اس خطے میں اﷲ تعالیٰ نے اپنے خاص بندوں سے رشد و ہدایت، فیض و شفا اور روحانیت کے ایسے دریا رواں فرمائے ہیں کہ جن سے دلوں کی بنجر زمین آباد ہوئی، حقائق و معرفت کی کھیتی اُگی اور تلاشِ حق میں سرگرداں سیراب ہوئے۔
انہی روحانی دریاﺅں میں ایک اہم دریائے حکمت و معرفت، منبع سرچشمہ ہدایت، مرکز ولایت حضرت بابا فریدالدین مسعود گنج شکرؒ کا مزارِ پُرانوار ہے۔
حضرت بابا صاحبؒ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں، آپؒ کا مزار پاک پتن شریف میں مرجع خلائق ہے، پاک پتن، پاکستان کے صوبے پنجاب کے ضلع ساہیوال کا مشہور قصبہ اور تحصیل ہے جو دریائے ستلج کے دائیں کنارے سے 8 میل دور واقع ہے۔

پاک پتن کا پرانا نام ” اجودھن “ ہے اس قصبے کو زمانہ قدیم سے تاریخی حیثیت حاصل رہی ہے اور یہ قدیم راجاﺅں کا دارالحکومت رہا ہے لیکن اب اس بستی اور قصبے کو صرف اور صرف حضرت بابا فرید مسعود گنج شکرؒ کی نسبت سے شہرت حاصل ہے اب اس کی پہچان کے لیے بس یہی حوالہ کافی ہے۔
جس طرح حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکرؒ ولایت میں، روحانیت میں، دنیائے علم و دانش میں، ریاضات و مجاہدات میں، ظہور کرامات میں اور حلقہ اولیاء کرام میں اپنے نام نامی ” فرید الدین “ کی طرح فرید یعنی انفرادی اور امتیازی مقام و رتبے اور شان کے حامل ہیں اسی طرح آپ کا مزار بھی ” فرید “ یعنی منفرد ہے۔
حضرت بابا صاحبؒ کے مزار کی وجہ شہرت آپؒ کا آج تک جاری و ساری فیض روحانی تو ہے ہی جس سے خلق خدا اپنے اپنے ظرف و مشرب کے مطابق اکتساب کر رہی ہے وہیں ایک وجہ شہرت وہ لطف دوام وہ باب کرم ہے جسے ” باب جنت“ کہاجاتا ہے اور عوام الناس اپنے اپنے طور پر اسے بہشتی دروازہ اور جنتی دروازہ کہتے ہیں۔
حضرت بابا صاحبؒ کے روضہ اقدس کے دو دروازے ہیں، ایک شرق کی جانب ” شرقی دروازہ “ جسے ” نوری دروازہ “ کہا جاتا ہے،دربار کی زیارت کے لیے آنے والے زائرین اسی دروازے سے دربار میں داخل ہوتے ہیں۔
دوسرا دروازہ جنوب کی جانب جنوبی دروازہ ہے یہی ” بہشتی دروازہ “ ہے عام دنوں میں یہ بند رہتا ہے اور صرف عرس کے ایام میں پانچ راتوں کے لیے پانچ تا 10محرم الحرام کھولا جاتا ہے۔
کتب معتبرہ کی روایت کے مطابق شیخ الشیوخ حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکرؒ کے روضہ کی تعمیر آپؒ کے مرید و خلیفہ سلطان المشائخ حضرت خواجہ سید محمد نظام الدین اولیاؒ نے کرائی تھی، حضرت نظام الدین اولیاؒ نے اشارہ غیبی سے روضہ مبارک کی بنیاد ایسی پاک اینٹوں پر رکھی تھی جن پر قرآن پاک ختم کیے گئے تھے۔ ( ایک روایت کے مطابق ایک ایک اینٹ پر گیارہ قرآن مجید کی تلاوت کی گئی تھی)
جب خواجہ نظام الدین اولیاؒ الہامِ غیبی کے مطابق روضہ مبارک تعمیر کرواچکے تو آپؒ نے بچشم باطن مشاہدہ کیا کہ ارواح مقدسہ کے جھرمٹ میں حضور سرور دو عالم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم جلوہ افروز ہیں اور آپؒ کو ارشاد فرماتے ہیں:
’’اے نظام الدین! جناب رب العزت سے ہمیں فرمان ہوا ہے کہ جو کوئی اس دروازے سے گزرے گا ان شاءاﷲ اس کی بخشش ہوجائے گی “ اور تم اعلان کردو ” مَن دَخَلَ ھٰذِہِ البَابَ اٰمِن “ ”جو اس دروازے سے داخل ہو ‘ اس نے امان پائی
ہر دور میں اکابر، مشائخ عظام اور اولیاء کرام حضرت بابا صاحبؒ کے مزار اقدس پر حاضر ہوکر اپنے اعلیٰ ظرف کے مطابق اکتساب فرماتے رہے ہیں اور بہشتی دروازے سے گزرنے کو اپنی سعادت جانتے رہے ہیں۔
آفتاب ولایت حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر رحمتہ اللہ کا شمار چشتیہ سلاسل کے معروف ترین بزرگان دین میں ہوتا ہے، سلسلہ چشتیہ میں سلطان الہند حضرت خواجہ غریب نوازؒ کے بعد سب سے زیادہ شہرت آپ ہی کے حصے میں آئی، آپ کے مریدین کی تعداد لاکھوں اور خلفا کی تعداد 700 ہے، چھ سو خلفا انسانوں میں اور سو خلفا جنات میں سے تھے، آپ مجذوب السالک تھے یعنی آپ کی روحانیت کے تین حصے جذب کے اور ایک حصہ سلوک پر مشتمل تھا۔
نام اور شجرہ نسب:
آپ کا نام مسعود اور والد کا نام سلیمان تھا اسی نسبت سے مسعود بن سلیمان کہلائے، آپ فاروقی ہیں، آپ کا شجرہ نسب عمر بن الخطابؒ سے جاملتا ہے۔
القابات:
گنج شکر ، شکر گنج، بابا فرید، شہباز لامکاں، باباصاحب کے القابات سے آپ کو یاد کیا جاتا ہے۔
پیر طریقت:
آپ نے قطب الاقطاب حضرت قطب الدین بختیار کاکی اوشیؒ کے دست حق پر بیعت کی جو خواجہ معین الدین چشتیؒ کے جانشین تھے۔
آپ کویہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ آپ کو بیک وقت آپ کے پیرو مرشد خواجہ قطب الدین بختیار کاکی سمیت سلطان الہند خواجہ معین الدین چشتی المعروف خواجہ غریب نواز رحمتہ اللہ نے بیک وقت روحانی قوت عطا کی اس موقع پر سلطان الہند نے تاریخی الفاظ ادا کیے کہ قطب الدین تم ایک شہباز کو زیر دام لائے ہو جس کے بعد آپ کو شہباز لامکاں کا لقب عطا ہوا کہ جس کا ٹھکانہ کہیں نہیں صرف سدرۃ المنتہیٰ پر ہے۔
مریدین خاص:
قطب عالم شیخ جمال الدین ہانسویؒ(محبوب ترین مرید)
حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءمحبوب الٰہیؒ(نظامی سلسلے کے بانی)
حضرت مخدوم علاء الدین احمد صابر کلیریؒ(صابری سلسلے کے بانی)
حضرت خواجہ بدرالدین اسحاقؒ (داماد)
بابا منگھوپیرؒ(کراچی میں مدفون ہوئے)
حضرت شمس الدین ترک پانی پتیؒ(جنہیں آپ نے صابر کلیری ؒ کے ساتھ کردیا تھا)
شیخ نجیب الدین متوکلؒ(بھائی)
چار ہم عصر اولیائے کرام:
حضرت شیخ بہا الدین زکریا ملتانیؒ: آپ سہروردی سلسلے کے بزگ ہیں، ملتان میں مدفون ہوئے۔
بابا فرید الدین مسعود گنج شکر: صاحب عرس، آپ سے فریدی سلسلہ جاری ہوا، پاک پتن میں مدفون ہوئے۔
حضرت جلال الدین سرخ بخاریؒ: نام سے ہی ظاہر ہے، آپ جلالی کیفیت کے حامل تھے
حضرت عثمان بن مروندی المعروف حضرت لعل شہباز قلندرؒ : آپ چاروں دوستوں میں سب سے کم عمر تھے، سیہون میں آپ کا مزار مرجع الخلائق ہے۔
درگاہ خاص حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءؒ کے صاحب شجرہ خواجہ امین الدین نظامی کے مطابق آپ چاروں دوست تھے، سب سے کم عمر لعل شہباز قلندر ؒ تھے، آپ چاروں سہروردی سلسلے کے بانی پیر طریقت شیخ شہاب الدین سہرودری کی خدمت میں حاضری کے لیے بغداد روانہ ہوئے، نصف شب کو پہنچے، شیخ شہابؒ نے حضرت عثمانؒ کو بلایا، ان سے خدمت لی، سینے سے لگا کر علم منتقل کیا اور انہیں لعل شہباز قلندرؒبنادیا، بعدازاں باری باری تینوں بزرگوں کو بلایا اور اپنی تصنیف عوارف المعارف(تصوف کی شہرہ آفاق کتاب) کا درس دیا اور مراتب سے نوازا۔
بابا فریدؒ نے اپنے چھ خلفا کبیر کو چھ علاقہ ولایت عطا کیے، قطب عالم شیخ جمال الدین ہانسویؒ کو ہانسی، خواجہ نظام الدین اولیاءؒ کو غیاث پور(دلی)، مخدوم صابر کلیریؒ کو کلیر شریف، منگھوپیر بابا کو کراچی کا علاقہ عطا کیا جبکہ اپنے داماد شیخ بدر الدین اسحاقؒ کو اپنے ساتھ رکھا جب کہ لعل شہباز قلندرؒ کو سیہون شریف بھیجا، ہر خلفا کبیر کے ماتحت سوسو خلفا رکھے جو کہ چھ سو ہوئے جب کہ سو خلفا جنات میں سے تھے یوں 700 کی تعداد پوری ہوتی ہے۔
حضرت لعل شہباز قلندرؒ بابا فریدؒ کا بہت احترام کرتے تھے، آپ کے حکم پر لعل شہباز قلندرؒ بابا منگھوپیر بابا سے ملنے کراچی تشریف لائے اس وقت یہ جگہ غیر آباد تھی، آپ کا مسکن ندی کنارے تھے، لعل شہاز قلندر ندی سے آپ کے گھر تک مگرمچھ پر سفر کرکے گئے، بعدازاں آپ کے چند خلفا منگھوپیر بابا کی خدمت میں آئے تو آپ بھی اپنے پیرو مرشد شیخ لعل شہبازؒ کی تقلید مگر مچھ پر سواری کرکے گئے بعدازاں وہ سارے مگر مچھ منگھوپیربابا کے مزار پررہ گئے اور انہیں وہاں کے مجاوروں نے باقاعدہ خوراک دی، ان ہی مگرمچھوں کی نسل کے مگر مچھ آج تک مزار کے احاطے میں موجود ہیں۔
اولادیں
آپ نے دو شادیاں کی، چھ اولاد نرینہ اور تین اولاد زرینہ پائیں
شیخ بدرالدین سلیمان
شیخ شہاب الدین گنج علم
شیخ نظام الدین شہید
شیخ یعقوب
شیخ عبداللہ
شیخ نصراللہ
بی بی فاطمہ
بی بی شریفہ
بی بی مستورہ
کرامتیں:
پتھر سونا بن گیا
آپ سے بہت سی کرامتیں پیش آئیں، ایک بار ایک عورت بیٹیوں کی شادی کی درخواست کے لیے آئی اور رونے لگی، آپ نے پتھر پر قل ھو اللہ احد پڑھ کر دم کیا تو وہ سونا بن گیا بعدازاں عورت بھی اپنے گھر میں یہ کرنے لگی لیکن پتھر پتھر ہی رہا اس نے آکر آپ سے کہا تو آپ نے تاریخی جملہ ادا کیا کہ اٹھارہ برس تک فرید نے وہ کیا جو خدا نے کہا اب فرید جو چاہتا ہے خدا اسے پورا کردیتا ہے۔
والدہ کو کچھ مشکوک غذا کھانے نہ دی
ایک بار دوران حمل آپ کی والدہ نے کچھ بیر توڑ کر کھائے تو طبیعت ایک خراب ہوئی، قے ہوئی اور سارا کھایا باہر آگیا،جب آپ بڑے ہوئے تو والدہ نے کہا کہ میں نےدوران حمل کبھی مشکوک شے معدے میں داخل نہ کی تب ہی تمہیں اتنی عظمت نصیب ہوئی تو بابا فرید نے کہا آپ کھا بھی لیتی تو میں کھانے کہاں دیتا تھا، آپ نے والدہ کو بیروں کا واقعہ یاد دلایا تو والدہ حیرت زدہ رہ گئیں۔
جادوگروں کے ٹولے کو شکست دی
آپ اجودھن میں تشریف فرما تھے کہ ایک گوالن دودھ لے کر گزری، آپ نے خریدنے کی پیشکش کی تو بولی کہ ایک جادوگر ہمارے جانوروں کا دودھ خریدتا ہے اسے نہ بیچیں تو جانورو مرجاتے ہیں، دودھ کی جگہ خون آتا ہے، آپ نے اسے روک لیا اور تسلی دی، اسے ڈھونڈتے ہوئے جادوگر کاایک چیلا آیا تو آپ نے اسے کہا بیٹھ جائو وہ بیٹھ گیا اور چاہنے کے باوجود اٹھ نہ سکا، دوسرا آیا تو آپ نے اسے بھی بٹھالیا اس طرح پورا گروہ آیا اور آپ فرماتے گئے بیٹھ جائو اور کوئی نہ اٹھ سکا، آکر میں جادوگر خود آیا اور وہاں بیٹھنے پر مجبور ہوگیا، جب اٹھ نہ سکا تو سر زمین پر رکھ کر معافی چاہی، آپ نے مشروط رہائی دی اور جادوگر تمام چیلوں سمیت وہ علاقہ فوری طور پر چھوڑ گیا۔
آپ کی کرامات بے شمار ہیں جنہیں مختصر وقت میں احاطہ تحریر میں لانا مشکل تھا اس لیے اختصار کے ساتھ صرف یہ تین کرامتیں تحریر کی گئی ہیں۔
گنج شکر کی وجہ تسمیہ:
اس ضمن میں کتب تصوف میں چار روایتیں ہمیں ملتی ہیں۔
اول روایت یہ ہے کہ بچپن میں آپ کی نماز کی عادت کوبرقرار کھنے کے لیے آپ کی والدہ قرسم خاتون آپ کے مصلے کے نیچے چپکے سے شکر رکھ دیا کرتی تھیں اور فرماتی تھیں کہ جو بچہ نماز پڑھتا ہے اسےاللہ تعالیٰ شکر عطا کرتا ہے ایک دن شکر رکھنا بھول گئیں لیکن غیب سے مصلے کےنیچے سے پھر بھی شکر نکل آئی جس پر قرسم خاتون کی آنکھیں بھر آئیں اور انہوں نے لاج رکھنے کا خدا کا شکر ادا کیا۔
دوسری روایت یہ ہے کہ آپ درخت کےنیچے آرام فرما تھا کچھ تاجر چینی لے کر گزرے آپ کے استفسار کہہ دیا کہ یہ تو نمک ہے تو آپ نے فرمایا کہ نمک ہی ہوگا، بعد ازاں تاجر وں نے بازار پہنچ کر بوریاں کھولیں تو نمک ملا، واپس آکر معافی کے طلب گار ہوئے تو آپ نے فرمایا بوریوں میں چینی ہے تو چینی ہی ہوگی، بوریاں کھولی گئیں تو چینی نکلی۔
تیسری روایت یہ ہے کہ آپ ضعف کے سبب رات کے اندھیرے میں ذکر الٰہی کرتے ہوئے گزرے اور گرپڑے ، منہ میں جو مٹی آئی وہ شکر بن گئی تو آپ کے پیرو مرشد نے آپ کو شکر گنج قرار دیا
چوتھی روایت ہے کہ آپ نے پیرومرشد کے کہنے پر طے کے روزے رکھے، آپ پانچ سے چھ دن سے روزے سے تھے محض پانی سے روزہ رکھ رہے تھے، ضعف اور مدہوشی میں آپ نے مٹی اٹھا کر منہ میں ڈال لی جو چینی بن گئی۔
وصال:
سلسلہ چشتیہ کے یہ آفتاب ولایت 95 سال کی عمر میں 5محرم الحرام 690ہجری کو علالت کے سبب دنیا سے پردہ فرما گئے، آپ کے وصال کے وقت آپ کے عزیز ترین محبوب خواجہ نظام الدین اولیاؒ آپ کے پاس نہ تھے جس طرح آپ اپنے پیرومرشد قطب الدین بختیار کاکی کے وصال کےوقت موجود نہ تھے۔
آپ کا مزار مبارک ملتان کے قریب پاک پتن شریف میں واقع ہے جہاں عرس نہایت عقیدت و احترام کے ساتھ منایا جاتا ہے۔
مضمون کی تیاری میں درج ذیل کتب سے مدد لی گئی
سیرالاولیاء: مولف حضرت امیر خورد کرمانیؒ
فوائدالفواد: مولف حضرت امیر العلا سنجریؒ
خیر المجالس: ملفوظات خواجہ نصیر الدین چراغ دہلی ؒ
کتاب سیرالاقطاب، مولف شیخ اللہ دیا چشتی ،مترجم محمد علی جویا
آپ نے قطب الاقطاب حضرت قطب الدین بختیار کاکی اوشیؒ کے دست حق پر بیعت کی جو خواجہ معین الدین چشتیؒ کے جانشین تھے۔

آپ کویہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ آپ کو بیک وقت آپ کے پیرو مرشد خواجہ قطب الدین بختیار کاکی سمیت سلطان الہند خواجہ معین الدین چشتی المعروف خواجہ غریب نواز رحمتہ اللہ نے بیک وقت روحانی قوت عطا کی اس موقع پر سلطان الہند نے تاریخی الفاظ ادا کیے کہ قطب الدین تم ایک شہباز کو زیر دام لائے ہو جس کے بعد آپ کو شہباز لامکاں کا لقب عطا ہوا کہ جس کا ٹھکانہ کہیں نہیں صرف سدرۃ المنتہیٰ پر ہے۔

بابافریدؒ کی ابتدائی تعلیم و تربیت ان کی والدہ قرسوم بی بی ہی نے کی، جو ایک نہایت دیندار خاتون تھیں۔ انہوں نے فریدؒ کو نماز، روزے اور دوسری عبادات کاایسا پابند بنا دیا کہ وہ نوجوانی ہی میں عابد و زاہد مشہور ہوگئے۔
بابا فرید حصول علم کے لیے ملتان، قندھار، بدخشان، بخارا اور بغداد بھی گئے۔
جو شے بابا فریدؒ کو دوسرے رہروانِ جادۂ سلوک سے ممیز کرتی ہے، وہ ان کی انتہائی سخت ریاضتیں اور مجاہدے ہیں۔ ایسے معلوم ہوتا ہے کہ آغاز شباب سے لے کر بڑھاپے تک آپ نے سخت ریاضتیں کرنا کبھی ترک نہیں کیا۔ چلہ کشی اور رات رات بھر عبادات میں کھڑے رہنا، مستقل روزے رکھنا اور افطار پر بھی بہت تھوڑا کھانا اور محتاجوں کی دستگیری کے لئے اپنا آرام تج دینا آپ کا طریق رہا۔

ریاضت کے دوران پیٹ پہ باندھنے والی لکڑی کا ذکر کرتے ہوۓ کہتے ہیں
یعنی میری روٹی کاٹھ ( لکڑی)کی ہے اور بھوک ہی میرا سالن ہے ۔ جو لوگ چُپڑی روٹی کھاتے ہیں وہ تکلیف بھی زیادہ برداشت کریںگے ۔

با با فریدالدین گنج شکر نے رنگ، نسل اور مذہب سے بالاتر
ہوکر ہمیشہ کل انسانیت کی بات کی۔
ایک بار انہیں کسی نے قینچی کا تحفہ دیا تو انہوں نے کہا کہ مجھے قینچی کا نہیں سوئی کا تحفہ دو۔ قینچی الگ کر دیتی ہے اور سوئی قیمت دیکھتی ہے نہ رنگ بس یہ آپس میں ملاتی ہے۔

مسجد اقصی ٰ میں قیام

بابافرید ایک ایسے صوفی، شاعر اور دانشور تھے جو معاملات کو ایک عام انسان کی نظر سے دیکھتے تھے۔ وہ مسجد اقصیٰ کے جاروب کش اور چلہ کش تھے 800 برس پہلے صلیبی لشکرکی شکست کے دس برس بعد یروشلم پہنچے ۔ انھوں نےوہاں قیام کیا ، مسجد اقصیٰ میں صبح دم جھاڑو لگاتے اور پھر اپنا دن ایک قریبی حجرے میں بسر کرتے ۔ یہاں وہ روزہ رکھتے اورخاموشی اختیارکرتے ۔ ان کا سارا وقت ذکرو فکر میں گزرتا ۔ اپنی عبادت وریاضت کی وجہ سے وہ بہت جلد مشہور ہوگئے۔

وہ جس حجرے میں رہتے اور عبادت کرتے وہ سرائے الہندی کے نام سے مشہور ہوگئی۔ بابا فرید نے واپسی کا سفر اختیارکیا اور اپنے وطن پنجاب کا رخ کیا لیکن سرائے الہندی کی شہرت میں اضافہ ہوتا رہا۔ ہندوستان سے مکہ مدینہ جانے والے پہلے یروشلم آتے، اس سرائے میں ٹہرتے اور وہاں عبادت کرنے کو اپنے لیے باعثِ سعادت جانتے۔

بابا فریدنے شام اور اس کے گرد ونواح میں انسانوں کودیکھا تھا جو صلیبی جنگوں سے شکستہ حال تھے۔ وہ کڑی ریاضتوں سے گزرکراپنے وطن واپس پہنچے تو وہاں بھی جدال وقتال نے انسانوں کوحال سے بے حال کررکھا تھا۔ ایک ایسے زمانے میں بابا فرید الدین گنج شکر نے روٹی کو دین کا چھٹا رکن قراردیا تھا اور لوگوں کے طنز سنے تھے اور فتوؤں کے تیرسے زخمی ہوئے تھے لیکن سچ تویہی ہے کہ ترازوکے ایک پلڑے میں گنج شکرکا یہ جملہ رکھ دیا جائے اوردوسرے میں تمام علما کے طعنے ودشنام تب بھی بابا فرید کے جملے کا پلڑا زمین کو چھوتا رہے گا

گنج شکر کی وجہ تسمیہ:

اس ضمن میں کتب تصوف میں چار روایتیں ہمیں ملتی ہیں۔

اول روایت یہ ہے کہ بچپن میں آپ کی نماز کی عادت کوبرقرار کھنے کے لیے آپ کی والدہ قرسم خاتون آپ کے مصلے کے نیچے چپکے سے شکر رکھ دیا کرتی تھیں اور فرماتی تھیں کہ جو بچہ نماز پڑھتا ہے اسےاللہ تعالیٰ شکر عطا کرتا ہے ایک دن شکر رکھنا بھول گئیں لیکن غیب سے مصلے کےنیچے سے پھر بھی شکر نکل آئی جس پر قرسم خاتون کی آنکھیں بھر آئیں اور انہوں نے لاج رکھنے کا خدا کا شکر ادا کیا۔

دوسری روایت یہ ہے کہ آپ درخت کےنیچے آرام فرما تھا کچھ تاجر چینی لے کر گزرے آپ کے استفسار کہہ دیا کہ یہ تو نمک ہے تو آپ نے فرمایا کہ نمک ہی ہوگا، بعد ازاں تاجر وں نے بازار پہنچ کر بوریاں کھولیں تو نمک ملا، واپس آکر معافی کے طلب گار ہوئے تو آپ نے فرمایا بوریوں میں چینی ہے تو چینی ہی ہوگی، بوریاں کھولی گئیں تو چینی نکلی۔

تیسری روایت یہ ہے کہ آپ ضعف کے سبب رات کے اندھیرے میں ذکر الٰہی کرتے ہوئے گزرے اور گرپڑے ، منہ میں جو مٹی آئی وہ شکر بن گئی تو آپ کے پیرو مرشد نے آپ کو شکر گنج قرار دیا

چوتھی روایت ہے کہ آپ نے پیرومرشد کے کہنے پر طے کے روزے رکھے، آپ پانچ سے چھ دن سے روزے سے تھے محض پانی سے روزہ رکھ رہے تھے، ضعف اور مدہوشی میں آپ نے مٹی اٹھا کر منہ میں ڈال لی جو چینی بن گئی۔

شاعری :

حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر فارسی اور عربی زبانوں کے بڑے عالم تھے تاہم ، بابا فرید نے مقامی پنجابی زبان میں بھی شاعری کی

آپ کے ہندوی کلام میں سندھ سے ہند تک کی مقامی بولیوں کے لفظ ملتے ہیں

بابا فریدؒ کا زمانہ آج سے آٹھ سو سال پہلے کا ہے، اس لئے ان کا کلام بھی اسی زمانے کی پنجابی میں ہے۔ اس قدیم زبان کے بہت سے لفظ آج اتنے غیر مانوس ہو چکے ہیں کہ عصر جدید کے کئی پنجابی بولنے والے انہیں سمجھ نہیں سکتے۔ مثلاً تھوڑے لوگ ہی جانتے ہوں گے کہ ’’دھن‘‘ کے معنی عورت اور ’’کڑی‘‘ کے معنی آواز یا صدا کے ہیں:
سکھ مذہب کے گرو نانک صاحب ، بابا فرید ؒ کی تعلیمات اور شاعری کو بہت پسند کرتے تھے، روایات کے مطابق گرو نانک صاحب (1469ء سے 1538ء) پاک پتن میں حضرت بابا فرید گنج شکر کے مزار پر بھی تشریف لے گئے تھے۔
گرو نانک صاحب کے فرامین کے مجموعہ کا نام ‘‘گرنتھ صاحب’’ ہے، ۔ سکھ مذہب کی مقدس کتاب گرنتھ صاحب میں بابا فرید گنج شکر کے سو سے زیادہ اشعار شامل ہیں ۔

حضرت بابا فرید گنج شکر ؒ کی شبانہ روز کوشش سے جب اجودھن (پاکپتن )کے در و دیوار قال اللہ و قال الرسول سے گونجنے لگے اور ہر طرف مسلمانوں کی چہل پہل ہو گئی تو بعض کوتاہ اندیش محض حسد و بعض کی وجہ سے آپؒ کی مخالفت کرنے لگے۔ ان مخالفوں میں سب سے پیش پیش اجودھن کی مسجد کا پیش امام اور قاضی تھا۔ جس نے پہلے تو حکومت کے کارندوں کو بابا صاحب کو ستانے پر اکسایا اور جب اس سے اس کا جی نہ بھرا تو بابا صاحب کے ذوق سماع پر طرح طرح کے اعتراضات کرنے لگا۔

ادھر بابا صاحب کی وسیع القلبی کا یہ عالم تھا کہ وہ مخالفوں کی حرکات کو مطلق خاطر میں نہ لاتے تھے اور اپنا دل میلا نہ کرتے تھے۔بابا صاحب کی اس شانِ بے اعتنائی سے قاضی کا غصہ اور بھڑک اٹھا اور اس نے سماع کے جواز اور عدم جواز کے مسلہ کی آڑ میں بابا صاحب کے خلاف سازشیں شروع کر دیں۔ اس نے ملتان کے علما سے آپ کے خلاف فتوی حاصل کرنے کی کوشش کی اور اپنے ایک خط میں علمائے ملتان سے استفسار کیا کہ ایک شخص جو اہل علم میں سے ہے۔ قوالی سنتا ہے اور وجد کرتا ہے۔ اس کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟

علمائے ملتان نے قاضی کو تحریر کیا کہ اس شخص کا نام لکھو۔ قاضی نے بابا صاحب کا نام لکھ بھیجا۔ علمائے ملتان نے حضرت کے خلاف فتویٰ جاری کرنے سے صاف انکار کر دیا اور قاضی کو لکھا کہ تم نے ایک ایسے درویش خدا مست کا نام لکھا ہے جو تمام علوم شریعت کا منتہی ہے۔ ہماری کیا مجال کہ اس کے قول و فعل پر اعتراض کریں۔

پھر مخالفین نے کسی شخص کو بابا صاحب کے قتل کے لئیے بھیجا ، حملہ آور چمڑے کا لباس اور کان میں بالی پہن کر آیا تھا۔ بابا فرید سجدے میں تھے جب ملزم نے حملے کا ارادہ کیا لیکن اس سے پہلے کہ وہ حملہ کرتا، با با فرید نے اس کا حلیہ بتاتے ہوۓ کہا کہ ’میں نے اسے معاف کردیا ہے‘۔
روایت ہے کہ اتنی بات پر وہ لرزہ براندام ہوا اور حملہ کیے بنا ہی بھاگ نکلا۔
5 محرم الحرام 1265ء سن عیسوی بمطابق 666ھ میں وفات پائی۔ ان کا مزار شہنشاہ محمد بن تغلق نے تعمیر کروایا جو آپ کے مرید تھے انہوں نے خود ہی کہا تھا: کندھی اپر رکھڑا کچرک بنھے دھیر کچے بانڈھے رکھیے کچر تائیں نیر (دیوار پر اگا درخت کب تک حوصلہ مند رہے گا۔ کچے برتن میں کب تک پانی سنبھالا جا سکتا ہے)۔ حضور بابا صاحب نے سخت بے چینی اور تکلیف میں گزارا۔ مگر تمام نمازیں جماعت کے ساتھ ادا کیں اور تمام وظائف بھی پورے کیے پھر عشاء کی نماز جماعت سے پڑھ کر آپ پر بے ہوشی طاری ہو گئی ۔ کچھ دیر کے بعد ہوش آیا تو آپ نے مولانا بدر الدین اسحاق سے پوچھا کے میں نے عشاء کی نماز پڑھ لی ہے۔ مولانا بدر الدین اسحاق نے جواب دیا حضور عشاء کی نماز وتر کے ساتھ ادا کر چکے ہیں ۔ اس کے بعد آپ پھر بے ہوش ہو گئے جب ہوش آیا تو فرمایا کہ میں دوسری مرتبہ نماز ادا کرو ں گا خدا جانے پھر یہ موقع ملے یا نہ ملے۔ مولانا بدر الدین کہتے ہیں کہ اس رات آپ نے تین مرتبہ نماز عشاء ادا کی۔ پھر آپ نے وضو کے لیے پانی منگوایا۔ وضو کیا دو گانہ ادا فرمایا پھر سجدے میں چلے گئے اور سجدے میں ہی آہستہ آواز سے یاحیی یا قیوم پڑھتے آپ واصل حق الحبیب ہو گئے

اپنا تبصرہ بھیجیں