برسلز ( نمائندہ خصوصی) یورپین دارالحکومت برسلز میں قائم ہونے والے پاک-بینیلکس اوورسیز چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر حافظ انیب راشد نے کہا ہے کہ پاکستان نے اگر اپنے معاشی مسائل کو حل کرنا ہے تو اسے اپنے اوورسیز شہریوں کو اس کیلئے اپنا باقاعدہ حصہ بنانا ہوگا۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے اوورسیز کی معروف ویب سائٹ’’ تارکین وطن‘‘ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔ انہوں نے کہاکہ فرد کے سرمائے کی طرح ایک قومی سرمایہ بھی ہوتا ہے۔ جب وہ سرمایہ غیر پیداواری چیزوں میں لگ جاتا ہے تو اس سے کچھ افراد کی ترقی تو ہو جاتی ہے لیکن مجموعی طور قوم آگے نہیں بڑھتی۔انہوں نے کہاکہ ہم اوورسیز پاکستانیوں کو پاکستان میں صرف پلاٹ کے خریدار کے طور پر ہی دیکھا جاتا ہے۔ لیکن کبھی اس بات کی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی کہ ادارے بنا کر پاکستانیوں کو ان کا حصہ دار بنایا جائے۔ اس سے نہ صرف سرمائے کا غیر پیداواری بہائو شروع ہوا بلکہ مینو فیکچرنگ انڈسٹری کو سرمایہ نہ ملنے کے سبب پاکستان مینو فیکچرر سے ایک کنزیومر سوسائٹی میں تبدیل ہوتا چلا گیا۔
انہوں نے کہا کہ اوورسیز پاکستانی امیر نہیں ہوتے لیکن ہر ایک بہتر نظام اور مواقع ہونے کے سبب کچھ خوشحالی رکھتے ہیں ۔ اس کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت نے روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ کے ذریعے انہیں ایک موقع فراہم کیا۔ جس کے نتیجے میں ملک کو 3 ارب ڈالر کا زر مبادلہ حاصل ہو گیا۔ اسی طرح اگر اوور سیز پاکستانیوں کو موقع ملے اور ان کا سرمایہ ذرائع پیداوار بنانے کیلئے استعمال ہو تو اس کے نتیجے میں نہ صرف ملک کو حقیقی اور دیرپا دولت حاصل ہوگی بلکہ اس سے اس کی کنسٹرکشن کی انڈسٹری بھی چلتی رہے گی۔
انہوں نے کہاکہ پاکستان بھی ایک زرعی ملک ہے اور بینیلکس ممالک بھی۔ لیکن یہاں انہوں نے اپنی زراعت کو جدید انڈسٹری میں تبدیل کر لیا جبکہ پاکستان اپنی بنیادی ضروریات کی اشیاء بھی درآمد کرنے پر مجبور ہے۔ انہوں نے مزید کہاکہ بینیلکس ممالک میں مقیم پاکستانی اس چیمبر کے ذریعے اس تمام زرعی ٹیکنالوجی کو اپنے ملک میں لیجانے کے خواہش مند ہیں۔ حکومت ان کیلئے آسانیاں پیدا کرے اور تعلیمی اداروں کو اپنے پیداواری عمل کا حصہ بنائے۔
انہوں نے آگاہ کیا کہ PABOCCI نے پاکستانی ایکسپورٹس میں اضافے کیلئے اپنے وئیر ہائوس پراجیکٹ اور یورپ میں ڈسپلے سینٹرز کا آئیڈیا تشکیل دیا ہے۔ اس نظام کے ذریعے ہم پاکستانی ایکسپورٹرز کے لیے یہ موقع فراہم کریں گے کہ وہ اپنا سامان یہاں رکھ کر فروخت کر سکیں۔ جس کی سپورٹ کیلئے ایک آن لائن سیل سسٹم بھی موجود ہوگا۔ اسی طرح جو کاروباری کمپنیاں کسی بھی وجہ سے یورپ میں ہونے والی کسی نمائش میں شرکت کیلئے اپنا سٹال بک کروا لیں اور پھر ویزہ نہ لگنے کے سبب وہ نہ آ سکیں تو PABOCCI ان کیلئے ان کی غیر موجودگی میں بھی ان کی مصنوعات کی مناسب تشہیر کی خدمات فراہم کرنے کی کوشش کرے گا۔
حافظ انیب راشد نے اس موقع پر پاکستانی ایکسپوٹرز کو یاد دلایا کہ پاکستان کی قابل برآمد اشیا کی فہرست زیادہ طویل نہیں۔ اس میں ٹیکسٹائل مصنوعات ہی قابل ذکر ہیں۔ لیکن یہ اس وقت جی ایس پی پلس سٹیٹس کی مرہون منت ہیں۔ انہوں نے سوال کیا اگر پاکستان سے آج یہ سہولت واپس لے لی جاتی ہے تو کیا ہم اپنی برآمدات کی موجودہ فگر برقرار رکھ پائیں گے ؟ ۔ انہوں نے مزید متوجہ کیا کہ یورپ اپنے لسانی تنوع کے لحاظ سے منفرد ہے ۔ 27 ملکوں کے ایک بلاک میں ہر ملک اپنی کئی لسانی شناختیں رکھتا ہے۔ لیکن جدید تحقیق کے سبب ان کے پاس وہ علم وافر تعداد میں میسر ہے جس کے ذریعے پاکستان نہ صرف اپنی قومی ضروریات کو پورا کرنے کے قابل ہو سکتا ہے بلکہ اپنی فاضل پیداوار کو برآمد بھی کر سکتا ہے ۔