امریکی ریاست ٹیکساس کے علاقے کولی ول میں یہودی عبات گاہ، کانگریشن بیت اسرائیل میں عبادت کرنے والوں کو یرغمال بنانے والا شخص مارا گیا۔
امریکی حکام نے اعلان کیا کہ تمام یرغمالیوں کو 12 گھنٹے کے تعطل کے بعد عبادت گاہ سے بحفاظت نکال لیا گیا ہے۔
امریکی فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن (ایف بی آئی) کے ڈیلاس میں موجود دفتر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ربی (یہودی مذہبی پیشوا) سیمت چاروں یرغمالیوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچا، واقعہ کسی مستقل خطرے کا حصہ نہیں ہے۔
عبادت گاہ کی جانب سے زور دار دھماکے اور فائرنگ کی آواز سنائی دینے کے تقریباً 20 منٹ بعد ٹیکساس کے گورنر گریگ ایبٹ نے ٹوئٹ کیا کہ ‘دعائیں رنگ لے آئیں، تمام یرغمالی زندہ اور محفوظ ہیں’۔
ایف بی آئی نے کہا کہ عبادت گاہ کی حدود کی خلاف ورزی کے دانستہ فیصلے سے قبل یرغمال بنانے والے شخص کے ساتھ ان کے مذاکرات کار مسلسل رابطے میں تھے۔
ان اعلانات کے فوراً بعد قریبی شہروں فورٹ ورتھ اور ڈیلاس کے میڈیا نے اطلاع دی کہ یرغمال بنانے والا شخص مرچکا ہے جس نے اپنا نام محمد صدیقی بتایا تھا۔
عبادت گاہ پر حملہ آور شخص نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ وہ عافیہ صدیقی کا بھائی ہے اور اس نے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔
پاکستانی نژاد امریکی نیورو سائنسدان عافیہ صدیقی کو نیویارک کی ایک عدالت نے 2010 میں افغانستان میں امریکی افسران کے قتل کی کوشش کے الزام میں 86 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
تاہم ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی نمائندہ وکیل نے کہا کہ یرغمال بنانے والے واقعے سےعافیہ صدیقی کا قطعی طور پر کوئی تعلق نہیں ہے اور مجرم ان کا بھائی نہیں تھا۔
ماروا ایلبیلی نے سی این این سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ’عافیہ صدیقی ہر گز یہ نہیں چاہتی کہ کسی انسان کے خلاف کوئی تشدد ہو، خاص طور پر ان کے نام پر تو ہرگز نہیں، یقینی طور پراس واقعے کا ڈاکٹر عافیہ یا ان کے خاندان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘
ماروا ایلبیلی نے کہا کہ ’یہ جو بھی حملہ آور ہے، ہم چاہتے ہیں کہ وہ یہ جان لے کہ عافیہ صدیقی اور ان کے خاندان کی جانب سے اس کے اقدامات کی مذمت کی گئی ہے،
مشتبہ شخص کانگریشن بیت اسرائیل میں اس وقت داخل ہوا جب عبادت گاہ میں ‘شبت’ کی صبح کی عبادت فیس بک پر براہِ راست نشر کی جارہی تھی، 12 گھنٹے سے زائد وقت گزر جانے بعد یہ پیش رفت سامنے آئی۔
براہِ راست نشریات ہٹائے جانے سے قبل اس میں اس واقعے کا کچھ حصہ ریکارڈ ہوگیا تھا، قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں نے سی این این کو بتایا کہ انہوں نے اس لائیو اسٹریم کا جائزہ لیا اور اس کی مدد سے اس واقعے اور اس میں ملوث افراد کا سراغ لگایا۔
قانون نافذ کرنے والے دو اہلکاروں نے سی این این کو بتایا کہ تفتیش کاروں کا خیال ہے کہ مجرم کا محرک ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کی خواہش تھی۔
مشتبہ شخص کی درخواست پر عبادت گاہ کے ربی نے نیویارک شہر کے ایک معروف ربی کو بلایا۔
حکام نے بتایا کہ مبینہ حملہ آور کا ربی سے کوئی تعلق نہیں تھا، اس نے انہیں بتایا کہ ڈاکٹر عافیہ کو پھنسایا گیا ہے، اور وہ ان کی رہائی چاہتا ہے۔
ایک علیحدہ امریکی ریاست میں فری ڈاکٹر عافیہ موومنٹ اور مسلمانوں کے حقوق کے لیے سرگرم گروپ کونسل آن امریکن-اسلامک ریلیشنز نے واقعے کی مذمت کی اور کہا کہ ڈاکٹر عافیہ کے بھائی کا اس واقعے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
کونسل آن امریکن-اسلامک ریلیشنز کے ہیوسٹن چیپٹر کے سربراہ اور ڈاکٹر عافیہ کے بھائی کے قانونی مشیر جان فلائیڈ نے کہا ’ایک عبادت گاہ پر یہود مخالف دشمنی کا یہ حملہ ناقابل قبول ہے، ہم یہودی برادری کے ساتھ یکجہتی میں کھڑے ہیں۔‘
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ یہ اچھی طرح سے بتانا چاہتے ہیں کہ یرغمال بنانے والا شخص ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا بھائی نہیں ہے، جو کہ اس علاقے میں بھی نہیں جہاں یہ خوفناک واقعہ پیش آیا ، ڈاکٹر عافیہ صدیقی اور ان کے اہل خانہ اس فعل کی شدید مذمت کرتے ہیں اور مجرم کے ساتھ نہیں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر عافیہ کے خاندان نے ہمیشہ قانونی اور غیر متشدد طریقوں سے اپنی بہن کی رہائی کی وکالت کی ہے۔
میڈیا کی جانب سے مشتبہ شخص کی موت کی اطلاع دیے جانے سے قبل کونسل آن امریکن-اسلامک ریلیشنز اور ڈاکٹر عافیہ کے خاندان کے قانونی مشیر نے اس پر زور دیا کہ ’یرغمالیوں کو فوری طور پر رہا کرو اور خود کو پولیس کے حوالے کردو۔‘
دوسری جانب امریکی صدر صدر جو بائیڈن نے ملک میں یہود دشمنی اور انتہا پسندی کے خلاف کھڑے ہونے کا عہد کیا۔
انہوں نے کہا کہ میں ہر سطح پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی انتھک محنت کا مشکور ہوں جنہوں نے یرغمالیوں کو بازیاب کرانے کے لیے تعاون اور بے خوفی سے کام کیا۔
امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ہم کانگریشن بیت اسرائیل، کولی ویل، اور یہودی کمیونٹی کے اراکین کو محبت اور طاقت بھیج رہے ہیں۔
امریکا میں اسرائیل کے سفیر مائیکل ہرزوگ نے کہا کہ وہ مشکورہیں کہ تمام مغویوں کو بحفاظت رہا کر دیا گیا ہے۔
یہودی کمیونٹی ریلیشن کونسل نے ایک بیان میں کہا کہ کسی کو بھی اپنی عبادت گاہ میں جمع ہونے کا خوف نہیں ہونا چاہیے۔