روٹی سے سوٹی تک تحریر محترمہ ممتاز ملک پیرس

       روٹی سے سوٹی تک

انسان ہو یا کوئی اور جاندار ۔ رزق پر اسکی زندگی کا دارومدار ہے ۔ ہر جاندار  رزق کی تلاش میں اپنی عمر کا بیشتر وقت گزار دیتا ہے ۔

دنیا کا ہر جاندار پیٹ بھرنے کے بعد بے ضرر ہو جاتا ہے پرسکون ہو جاتا ہے ۔ مطمئن ہو جاتا ہے ۔

 لیکن انسان وہ جاندار ہے کہ پیٹ بھرنے کے بعد یہ دراصل خطرناک ہوتا ہے ۔ یہ جب تک بھوکا رہیگا جھکا رہیگا ۔ بےضرر رہیگا، لیکن جہاں اس کا پیٹ بھرا وہیں اس کے دماغ کی شیطانی رگیں پھڑکنا شروع ہو جاتی ہیں۔ اس کا اگلا مرحلہ اپنی حفاظت کے لیئے چھت کی تلاش پھر تعیش  اور اس کے بعد ہوتی ہے خود کو سب سے برتر منوانے کی جدوجہد کا آغاز۔۔۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ زندگی کی 95 فیصد خوشیوں کا انحصار مال و دولت پر ہوتا ہے ۔  ہماری  زندگی کے صرف  5 فیصد معاملات وہ ہوتے ہیں جنکا تعلق ہمارے جذبات سے ہوتا ہے لیکن یہ پانچ فیصد جذبات کا زہر اتنا منہ زور ہوتا ہے کہ زندگی کی مال و دولت سے بھری ہوئی دودہ کی بالٹی کو پل بھر میں برباد کر سکتا ہے۔ آج  آپ کسی پر بڑے سے بڑا احسان کر دیں بھلے سے اس کی جان بچا لیں لیں پھر بھی سب سے بڑا محسن اسی کو کہا جاتا ہے جو انسان آپکی مالی مشکلات کو کم کرنے میں آپکی مدد کرتا ہے وہی آپ کا سب سے بڑا محسن مانا جاتا ہے ، ہر ایک کی نظر میں ، ماسوائے اس کے جس پر آپ نے یہ احسان کیا ہو گا ۔ اس کی مہربانی کا بدلہ آپکی ممنونیت کی صورت میں ظاہر ہونا چاہیئے نا کہ آپ اپنی احسان فراموشی سے خود کو جذباتی زہر کا قطرہ بنا کر اس بات کو ثابت کر دیں جس پر احسان کرو اس کے شر سے ڈرو اور بچنے کی کوشش کرو۔
ہم اپنے جن عزیزوں کو دوستوں کو آگے بڑھانے کے لیئے اپنے کندھے پیش کرتے ہیں وہی اپنا قد بڑھانے کے بعد ان کندھوں کو توڑنے میں مرکزی کردار ادا کرتے ہیں ۔ ہمارے ملک کے آج کے حالات بھی اسی قسم کی صورتحال کو بیان کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ پہلے بھوک مٹانے کے لیئے دوسرے کے حقوق جان مال کھانا خود اپنی لغت میں اپنے ہاتھوں سے جائز لکھ لیا جاتا ہے تو اس کے بعد سر چھپانے کی جدوجہد میں محنت سے جان چھڑا کر قبضہ گیری اور رسہ گیری کو اپنا خودساختہ حق سمجھ لیا جاتا ہے ۔ جس نے جسے انگلی پکڑائی صاحب چال نے جھٹ سے اس کا پہنچہ پکڑنے میں دیر نہ لگائی ۔ کہیں آنسو بہائے گئے، کہیں قدموں میں دوپٹے گرائے گئے، اور کہیں پگڑیاں فرش پر بچھا دی گئی ہوں، کہیں ترلے منتیں وعدے وعید اور قسمیں اٹھائی گئی ہوں کتنی ہی لکھا پڑھی کی گئی ہو.

 غالبا خود کو سب سے زیادہ ضرورت مند ہی نہیں معتبر ثابت کرنے کے لیئے بھی کسی ڈرامے سے گریز کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے سامنے والا نرم دل بااختیار دار شخص بکرا بن کر آپکے دھوکے کی چھری کے نیچے ایک بار آ جانا چاہیئے بس ۔۔۔۔۔ اس کے بعد اس کے ساتھ جو کچھ ہو گا وہ اس کے کیا شاید ابلیس لعین کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہو گا ۔ نمک حرامی کی وہ وہ مثالیں قائم کی جائیں گی اور احسان فراموشی کے وہ وہ ریکارڈ ٹوٹیں گے کہ نیکی و امداد کرنے والے کے چودہ طبق روشن ہو جائینگے ۔ 

لوگ پیٹ بھرنے کے بعد صاحب اختیار ہونے اور اثرورسوخ حاصل کرنے کے لیئے ہر قیمت ادا کرنے کو تیار ہوتے ہیں وہ قیمت چاہے انہیں اپنی عزت کی صورت ادا کرنی پڑے یا کسی رشتے کی موت کی صورت چکانی  پڑے بس اختیار کی سوٹی ان کے ہاتھ لگنی چاہیئے ۔ لیکن ایک سوٹی ایک لاٹھی پروردگار کی ہوتی ہے جب وہ چلتی ہے تو بڑے بڑے سوٹیوں والے برج الٹتے ہوئے یہ دنیا ہمیشہ سے ہی دیکھتے آئی ہے ۔ مگر دل ہے کہ مانتا نہیں 

اسے یہ یقین ہی نہیں ہوتا کہ اگلی باری اس کی بھی ہو سکتی ہے کہ ہر چڑھتے سورج کا اترنا تو بہرحال مقدر ہوتا ہے۔ یہ سب جانتے بوجھتے ہوئے بھی ہر شخص دیوانہ وار روٹی سے سوٹی تک کے سفر میں دیوانہ وار بھاگے چلا جا رہا ہے ۔ اخلاقی دیوالیہ پن کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہو گی ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں