اسلامی بینکنگ نظام قانون سازی سے ہی رائج ہوگا:وفاقی شرعی عدالت

یف جسٹس وفاقی شرعی عدالت نے سودی مالیاتی نظام سے متعلق کیس میں آبزرویشن دی ہے کہ حکومت اور بینک بلا سود لین دین پر اتفاق رائے پیدا کریں،ہم بینک بند نہیں کرسکتے ،تاہم جب تک قانون سازی نہیں ہوگی تب تک کوئی نظام نہیں چل سکتا ہے۔

چیف جسٹس شرعی عدالت نور محمد کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے سودی مالیاتی نظام سے متعلق کیس کی سماعت کی۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق دوران سماعت سٹیٹ بینک کی جانب سے اسلامی بنکاری نظام کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کی مفصل رپورٹ پانچ جلدوں میں پیش کی گئی جبکہ اسٹیٹ بینک اور یونائیٹیڈ بینک کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے عدالت کو بتایا کہ وہ اٹارنی جنرل کے بعد حتمی دلائل دیں گے،تاہم انہوںنے ابتدائی دلائل دیتے ہوئے موقف اپنایا کہ اسلامی بینکنگ سسٹم کے لیے پاکستان نے جو کام کیا ہے پوری اسلامی دنیا اس کی معترف ہے ،حکومت اور اسٹیٹ بینک کے اقدمات کے باجود اسلامی بینکاری نظام کا قیام آسان کام نہیں ،اس سلسلے میں دشواریاں درپیش ہیں۔

اسٹیٹ بینک کی طرف سے اسلامی بنکاری نظام کے لیے اقدامات کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ سٹیٹ بینک بلا سود لین دین کا نظام قائم کرنے میں سنجیدہ ہے،لیکن اسلامی بینکنگ سسٹم راتوں رات قائم نہیں ہوسکتاہے ،یہ ایک ارتقائی عمل ہے.

چیف جسٹس نے کہا حکومت اور مالیاتی ادارے اتفاق رائے پیدا کریں تو یہ کام آسان ہو سکتا ہے۔ وکیل نے کہا یہ کام آسان نہیں، قانونی دشواریاں ہیں، پالیسی کا بھی معاملہ ہے۔

جسٹس ڈاکٹر سید محمد انور نے سٹیٹ بینک کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے مطابق جب حکومت خود اسلامی بنکاری نظام کی جانب جارہی ہے تو پھر رکاوٹیں کیوں؟ جب حکومت سود کے خاتمے کے لیے دیانت داری سے کام کررہی ہے تو پھر رکاوٹیں نہیں ہونی چاہیئیں۔

بعد ازاں عدلت نے مزید سماعت یکم فروری تک ملتوی کردی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں